پاکستان کے سابق وزیراعظم نوازشریف نے وطن واپسی کااعلان کردیا ہے ،پانامہ کے مقدمے میں سزاپانے کے بعد انہیں علاج ومعالجے کی غرض سے بیرون ملک بھیج دیاگیاتھا جہاں ان کی طبیعت مسلسل ناسازرہی اور وہ اپنے علاج معالجے پرپوری توجہ رکھے ہوئے تھے اس دوران انہوں نے پاکستان کی سیاست سے تقریباً لاتعلقی رکھی تاہم ایک سیاستدان ہونے کے ناطے ان کی پاکستانی سیاسی معاملات پرگہری نظررہی تاہم تحریک انصاف نے ان کے بیرون ملک کے قیام کوہمیشہ تنقیدہدف بنائے رکھااوراسے سیاسی فرارکانام دیتے رہے ۔نوازشریف کو جب پانامہ کے مقدمے میں سزاسنائی گئی تو وہ اپنی اہلیہ کے علاج ومعالجہ کے سلسلے میں برطانیہ میں مقیم تھے تاہم عدالت سے سزاپانے کی خبرسن کروہ ازخود رضاکارانہ طورپرپاکستان واپس آئے اور خود کواوراپنی صاحبزادی کوقانون کے حوالے کیااور جب وہ اڈیالہ جیل میں اسیرتھے تو اس دوران ان کی اہلیہ وفات پاگئیں،شریک زندگی کے رخصت ہوجانے کے باعث ان کی صحت پرشدید اثرات مرتب ہوئے اور لاہورجیل میں ان کی صحت اچانک خراب ہوناشروع ہوگئی جس پر حکومت پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں سے ان کے ٹیسٹ کروائے گئے جہاں میڈیکل بورڈنے ان کے بہترعلاج معالجے کے لئے انہیں باہرمنتقل کرنے کی سفارش کی جس پر عدالت کی اجازت سے وہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور اب صحت یاب ہونے پرایک بارپھراپنے وطن واپس آنے کااعلان انہوں نے کیاہے۔یقینا واپس آکروہ اپنی بقیہ ماندہ سزابھی کاٹیں گے اور دیگرمقدمات کاسامنابھی کرینگے۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اپنے آپ کو مثال بناناپڑتاہے وہ کبھی بھی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے بھاگے نہیں بلکہ اپنے دفاع کاحق بھرپورطورپراستعمال کیا۔گزشتہ روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ مشاورت میں طے پایا ہے کہ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے۔ نواز شریف واپس آکر قانون کا سامنا کریں گے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پانامہ میں نواز شریف کا نام دور دور تک نہیں تھا جبکہ ساڑھے چار سو پاکستانی سیاستدانوں کےنام تھے، جن کے بارے میں آج تک کسی نے نہیں پوچھا۔ نواز شریف کو پانامہ میں بے بنیاد اور سازش کے ذریعے ملوث کیا گیا۔اقامہ میں جو فیصلہ کیا گیا وہ بدنیتی پر مبنی تھا، آج پوری قوم کے سامنے حقائق آ چکے جس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا۔ چیف جسٹس کو چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل میں احوال پوچھنا یاد آگیا، جب نواز شریف بیٹی کے ساتھ واپس آئے تو ان کو پتا تھا جیل بھجوایا جائے گا، اڈیالہ جیل میں نواز شریف اور مریم نواز کو پہلی رات زمین پر سلایا گیا اور کہا گیا آپ کو جیل کا کھانا ہی کھانا پڑے گا۔ آئین کے مطابق ہم نے اسمبلیاں توڑیں، اب چیف الیکشن کمشنر کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کروائیں، صاف وشفاف انتخابات کےلئے ہماری پارٹی الیکشن کمیشن کی بھرپور معاونت کرےگی۔قبل ازیں لندن میں نواز شریف کی رہائشگاہ پر ملاقات میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ ملاقات میں سیاسی صورتحال آئندہ انتخابات پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔نواز شریف نے پارٹی کارکنوں کو ہدایت کی عام انتخابات کی بھرپور تیاری کریں تمام تنظیموں کو فعال کیا جائے، اجلاس میں پارٹی آمور کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالےسے سوالات کیے گئے۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ شہباز شریف لندن میں مزید قیام کریں گے۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے دوران حلقہ بندی کا عمل جلد مکمل کرنے کے حوالے سے تجاویز الیکشن کمیشن کو دے دیں۔لیگی وفد نے اپنی تجاویز میں کہا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 15 سے 20 دن قبل مکمل ہو سکتا ہے، نئی ووٹر لسٹوں کو ساتھ مرتب کیا جا سکتا ہے، نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل کر کے انتخابی شیڈول جاری کیا جا سکتا ہے، اس عمل سے جلدی انتخابات ممکن ہو سکیں گے، آئین اور قانون کے مطابق جتنا جلدی الیکشن ہو ملک کیلئے بہتر ہے۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز پر الیکشن کمیشن نے مثبت جواب دیا، الیکشن کمیشن اپنی صلاحیت اور اہلیت دیکھ کر جلد انتخابات کروانے کی کوشش کرے گا، الیکشن کمیشن بھی چاہتا ہے کہ سیاسی عمل جاری رہے اور وہ بھی یہ ذمہ داری جلد نبھانے کا خواہاں ہے۔آئین اور قانون 90 دن میں انتخابات کرانے کا کہتا ہے، آئین کے مطابق نئی مردم شماری کے سرکاری نتائج جاری ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں۔ادھر کراچی میں پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد شیری رحمن نے پارٹی رہنماو¿ں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں چار پانچ امور پر گفتگو ہوئی جس میں اراکین نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اپنی سفارشات بھی پیش کیں۔ اگر الیکشن 90 دن سے آگے جاتا ہے تو ملک میں آئینی اور بحرانی کیفیت ہو گی کیونکہ آئین بہت واضح ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، اس میں مردم شماری کے حوالے سے بھی بات ہوئی اور پیپلز پارٹی کے موقف میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ہمارے اس فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ آئین میں جو 90 دن کا وقت مختص ہے اس میں الیکشن ہونا چاہیے، بے وجہ ملک کو آئینی اور سیاسی بحران کی جانب سے نہیں لے کر جانا چاہیے اور اس ضمن میں ہمارا وفد الیکشن کمیشن سے بات چیت بھی کرے گا۔ ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، ہمیں کہا گیا تھا کہ مردم شماری کی منظوری کی وجہ سے کوئی تاخیر نہیں ہو گی، جب سیٹوں میں اضافہ نہیں ہونا ہے تو پھر نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر الیکشن ملتوی نہیں کر سکتے۔ بنیادی بات جو بھی تنازعات شروع کیے گئے ہیں اور الیکشن کو ملتوی کرنے کا جو جواز بنایا جا رہا ہے وہ حلقہ بندیاں ہیں، 5اگست کو یہ مشترکہ مفادات کونسل میں حلقہ بندیوں کی منظوری دیتے ہیں اور آرٹیکل 51(5)کہتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق ہوں گی، اس میں کہیں بھی حلقہ بندیوں کا ذکر نہیں ہے۔ 9اگست کو وزیراعظم اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائش بھیج دیتے ہیں تو آئین کا آرٹیکل 224 لاگو ہوجاتا ہے جو کہتا ہے کہ جب وزیراعظم کی ایڈوائش پر اسمبلیاں تحلیل ہونگی تو انتخابات 90 دن میں ہوں گے، آئین سب سے مقدم ہے اور آئین کی دفعات کے تحت الیکشن کو 90 دن کے اندر ہونا چاہیے۔
بجلی بلوں کے خلاف عوام سڑکوں پرآگئے
ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے بعد بھاری بلز اور ٹیکسز نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔گزشتہ روزملک بھرمیں چھوڑے بڑے شہروںاور قصبوں میں عوام نے بجلی کے بھاری بلز کیخلاف شدید احتجاج کیاجس میں حکومت سے بجلی کے بلوں میں شامل اضافی ٹیکس اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کو کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔شہر قائد میں بجلی کے بھاری بلز اور ٹیکسز کے خلاف تاجر تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔صوبائی دارلحکومت لاہور کے مختلف علاقوں میں شہریوں کی جانب سے بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔مظاہرین نے بلز میں بھاری ٹیکسز کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ارباب اختیار سے بجلی کے بلوں میں فوری طور پر کمی کرنے کا مطالبہ کیا۔ مہنگی بجلی اور بھاری بھرکم بلوں کے خلاف پشاور کے عوام بھی سراپا احتجاج رہے ۔ مظاہرین نے بجلی کے بلز نذر آتش کرتے ہوئے کہا کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور بلوں میں ٹیکسز کی بھرمار ناقابل برداشت ہے۔بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف شہریوں نے راولپنڈی میں لیاقت باغ کے قریب احتجاج کیا۔ ہر طرح کا ٹیکس حکومت نے بل میں شامل کر دیا ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں، حکومت ہوش کے ناخن لے اور عوام پر رحم کرے۔ دوسری جانب ملک میں مہنگائی میں اضافے کا رجحان بھی جاری ہے۔حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.05فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیاہے ۔حالیہ ہفتے ملک میں22 اشیائے ضروریہ مہنگی ، 12سستی ہوئیں جبکہ 17کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں۔ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق حالیہ ایک ہفتے کے دوران پیاز، دال مسور، چینی، لہسن، انڈے، اور دال ماش،بیف،مٹن،کھلا دودھ،دہی اور انرجی سیور سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی22 اشیا مہنگی ہوئیں۔چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 172 روپے کلو تک پہنچ گئی ۔
اداریہ
کالم
نوازشریف کی وطن واپسی کااعلان اورآمدہ انتخابات
- by web desk
- اگست 27, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 609 Views
- 1 سال ago