اداریہ کالم

نگران وزیراعظم کا انٹرویو میں اظہار خیال

idaria

ُٰپیٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں مسلسل ہونے والے اضافے کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ بادل ناخواستہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ لنک اپ ہیں عالمی منڈی سے ، اگر وہاں سے مہنگے داموں پیٹرول ملے تو ہم سستے داموں کیسے فروخت کرسکتے ہیں ، پاکستان میں ہمیشہ ہر آنے والی حکومت نے اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں کی قیمت غریب عوام کی جیبوں سے نکالی ہے اور ہر حکومت نے من چاہے ریٹس مقرر کئے ، بجلی کے ، پیٹرولیم مصنوعات کے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی خود بخود آسمان کو چھونے لگتی ہے اور پھر عوام کو اسی قسم کے بیانات دے کر طفل تسلیاں دی جاتی ہیں ، اب گزشتہ روز نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں کے تناظر میں پٹرول کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ بڑا چیلنج ہے، عوامی احتجاج سے متعلق میڈیا کے ایک حصہ نے میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا، جو بات کہی نہ گئی ہو وہ تہمت اور صحافتی بددیانتی کے زمرے میں آتی ہے، امید ہے کہ میڈیا میں بھی اخلاقیات اور ضابطہ اخلاق پر عمل کیا جائے گا۔خراب ٹیکس نظام کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے، ہمیں اپنے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی دہائیوں سے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نہیں کی گئیں، انتظامی اقدامات کے باعث روپیہ مستحکم ہوا ہے، یہ ہم سب کا کریڈٹ ہے۔ پاک فوج کا نظام دیگر اداروں کے مقابلے میں مضبوط ہے، آرمی چیف آئین کی عملداری کے بھرپور حامی ہیں، سویلین اداروں کی استعدادکار میں اضافہ اور کارکردگی میں بہتری پر توجہ مرکوز ہے۔ تاجر برادری کو سرمایہ کاری اور کاروبار کے بارے میں تحفظ کے خواہاں ہیں تاکہ انہیں سازگار اور کاروبار دوست ماحول میسر آئے۔ ریاست کے مفاد میں بعض اوقات مشکل اور تلخ فیصلے کرنا پڑتے ہیں، یہ منصب کا تقاضا ہوتا ہے، عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں، عوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ انتخابات نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن اس حوالے سے پوری تیاری کر رہا ہے اور آئین کے مطابق اقدامات کر رہا ہے، فنڈز اور سکیورٹی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کریں گے۔ آئینی طریقہ کار کے تحت موجودہ نگراں حکومت وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے مشاورت سے تشکیل دی، جس دن نئی حکومت قائم ہوگی اس وقت انتقال اقتدار نومنتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا آئینی اختیار ہے، وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں اور اس بارے میں پاکستان کا موقف واضح ہے، بلوچستان متنازعہ علاقہ نہیں ہے، اقوام متحدہ نے کشمیر کے متنازعہ علاقہ کی قسمت کا فیصلہ رائے شماری سے کرانے کا وعدہ کیا ہے، بھارت میں خالصتان سمیت علیحدگی پسندی کی مختلف تحریکیں چل رہی ہیں، جونا گڑھ کے معاملہ پر بھی پاکستان دعویدار ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں اجاگر کروں گا، بھارت میں ہندوتوا کے پیروکار پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہیں کرتے، وہ اکھنڈ بھارت کی تقسیم میں قائداعظم اور برصغیر کے مسلمانوں کا کردار سمجھتے ہیں اور وہ پاکستان کو دشمن سمجھتے ہیں اور ہم بھی بھارت کو اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں، دشمنی کو کم کرکے پرامن بقائے باہمی اچھی بات ہے اور ایسا ہونا چاہئے، دوستی دشمنی دائمی نہیں ہوتی، بھارت انتخابی عمل کی طرف جا رہا ہے اور وہاں ایک پارٹی کا تسلسل قائم ہو رہا ہے جس کے خطے اور پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، پاکستان بھارت میں ہونے والی تبدیلیوں کا سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغانستان سے اتحادی فوج کے انخلا کے بعد چھوٹے اور جدید ہتھیار وہاں رہ گئے جو کہ کالعدم تنظیموںاور غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ لگ گئے، یہ ہمارے لئے چیلنج ہے، پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کو اب بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، امریکہ کے خطے سے جانے کے بعد عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ختم نہیں ہونا چاہئے، عالمی برادری کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں پاکستان اور دیگر ممالک کی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ دہشت گردی کا شکار نہ ہوں۔
قرآنی تعلیم اور اسلا م آبادہائی کورٹ
قرآن پاک کی تعلیم و تدریس تعلیمی اداروں میں دیئے جانے کا حکم حکومت نے دے رکھا ہے مگر بعض تعلیمی ادارو ں میں اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا جبکہ بعض تعلیمی اداروں میں مختلف قسم کے دینی نصاب کی تعلیم دی جارہی ہے ، اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری وزارت تعلیم سے قرآن مجید سمیت دیگر اسلامی کتابیں پڑھانے سے متعلق رپورٹ اور سکولوں میں پڑھانے والا نصاب طلب کر لیا،تعلیمی اداروں میں ناظرہ قرآن وترجمہ لازمی قرار دینے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی،درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آئین کے ایکٹ 2017کے تحت پنجاب میں ناظرہ قرآن و ترجمہ اور اسلامی تاریخ پڑھانا لازمی ہے، وفاقی حکومت نے ابھی تک پاس کردہ قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا،جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا کہنا تھا کہ ویسے تو تعلیمی اداروں میں شرعیہ، اسلامیات، قرآن ناظرہ سب کچھ پڑھا رہے ہیں،وزارت تعلیم کے نمائندے نے کہا کہ تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں ناظرہ قرآن اور ترجمہ پڑھایا جارہا ہے،عدالت نے وزارت تعلیم سے آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹس طلب کر لیں اور وزارت تعلیم کے نمائندے کو ہدایت دی کہ کس کلاس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے، یہ آپ نے بتانا ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 14نومبر تک کیلئے ملتوی کر دی۔اب یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر کیا حکم صادر کرتی ہے ۔
چیف جسٹس کی نیک شروعات
موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز سپریم کورٹ آمد پرایک نئی روایت کا آغاز کیا ہے کہ انہوں نے بحیثیت چیف جسٹس پولیس سے گارڈ آف نہ لینے کا فیصلہ کیا اور فرمایا کہ میں یہاں پر عدل کے فروغ کیلئے تعینات ہوا ہوں کسی قسم کے پروٹوکول لینے کیلئے نہیں ، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے روایتی بلٹ پروف گاڑی لینے سے بھی انکار کردیا جو اس سے پہلے تمام چیف جسٹس صاحبان لیتے آئے ہیں ، قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے پہلے عوامی سماجی حلقوں میں پہلے سے مقبول تھے ، وہ سپریم کورٹ کے واحد جج تھے جو جوڈیشل کالونی سے سپریم کورٹ تک پیدل آیا جایا کرتے تھے ، ان کے پاس تمام وسائل موجود ہیں ، ان کے والد گرامی بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں اور ان کا شمار بلوچستان کے معزز گھرانے سے ہے ، اسی حوالے سے چیف ایڈیٹر پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز ایس کے نیاز ی نے روز نیوز کے مقبول پروگرام” سچی بات“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا گارڈ آف آنرلینے سے انکار احسن اقدام ہے،ان کا پہلا دن اچھارہا ،امیدہے تسلسل برقرار رکھیں گے، پارلیمان کا فیصلہ موجود رہنے کا امکان ہے،فیصلہ موجود رہا تو نوازشریف واپس آکر وزیراعظم بن سکتے ہیں۔پروگرا م میں شریک صدراسلام آباد ہائیکورٹ بار نوید ملک نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے،چیف جسٹس سپریم کورٹ رولز میں بہتری چاہتے ہیں،چیف جسٹس کا اہم معاملے پر فل کورٹ بنچ بلانا احسن اقدام ہے،ملکی تاریخ میں تمام کارروائی کو براہ راست نشر کرنا بھی بہت اچھا فیصلہ تھا،کیسز کی اردو زبان میں تشریح کے اقدام کو سراہتے،چیف جسٹس کے عدالتی نظام کی بہتری کیلئے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں،بہت عرصے سے یہ مطالبہ تھا کہ فرد واحد کا اختیارختم ہونا چاہیے ، سپریم کورٹ یہ دیکھ رہی ہے کہ کیا پارلیمنٹ یہ قانون سازی کرسکتی ہے یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے