وزیر اعظم پاکستان نے اپنے ایک انٹر ویو کے حوالے سے پائے جانے والے ابہامات کو دور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں تمام معاملات آئینی اور قانونی طور پر چلائے جارہے ہیں اور ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ان کے انٹرویوز کو توڑ موڑ عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے کسی مخصوص سیاسی جماعت کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی ، یہ تاثر قطعی طور پر غلط ہے اور درست نہیں کیونکہ ریاست اپنے تمام معاملات کو آئین اور قانون کی نذر سے دیکھتی ہے اور اسی ذریعے سے اس کو حل کیا جائے گا ، وزیر اعظم کے اس انٹرویو کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات کو آئین اور قانون کی روشنی میں دیکھا جارہا ہے اور کسی فرد واحد کی خواہش کے مطابق فیصلے نہیں کئے جارہے ، آئین کے رو سے ملک تمام شہری آزاد اور خودمختار ہے اور انہیںرائے دہی کا پورا حق حاصل ہے ، وزیر اعظم نے اس تاثر کی بھی وضاحت کی ہے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ابھر رہا ہے کہ شاید نگران حکومت ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی برتے گی یا انہیں خصوصی سہولیات فراہم کی جائینگی ، اس حوالے سے وزیر اعظم نے کھل کر کہا کہ ان کے ساتھ عدالت کے فیصلوں کے مطابق سلوک کیا جائے گا ،لندن میں پریس کانفرنس اور غیرملکی میڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سارے معاملات قانونی ہیں سیاسی نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ڈپٹی کمشنر کسی کو بند کر کے بولے کہ تم الیکشن نہیں لڑسکتے، دورہ لندن کوسیاسی رنگ نہ دیا جائے ، تاثر نہیں دینا چاہتے کہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کےخلاف ہیں،بھارت دہائیوں سے پاکستان سمیت خطے میں دہشتگردی میں ملوث،بھارت مسئلہ کشمیریواین قراردادوں کے مطابق حل کرے،کسی کو اپنے معاملات میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ نواز شریف کی پاکستان واپسی پر نگراں حکومت قانون کے مطابق اقدامات کرے گی اور ہم جائزہ لیں گے کہ نواز شریف کو عدالتی اجازت کی حیثیت کیا ہے جبکہ اس معاملے میں وزارت قانون سے بھی رائے لی جائے گی،نگراں حکومت کی وابستگی کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے، ہم آئینی و قانون کے دائرے کے مطابق کام کررہے ہیں اور تاثر نہیں دینا چاہتے کہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف ہیں،انتخابات فوج کی نگرانی میں ہونگے یا نہیں فیصلہ الیکشن کمیشن کریگا۔ الیکشن میں چیئرمین پی ٹی آئی والی میری بات کو گھما پھرا کر بیان کیا گیا اور بدقسمتی سے لوگوں کو غلط تاثر دیا گیا، الیکشن میں عمران خان حصہ لیں گے یا نہیں اس بات کا فیصلہ قانون طے کرے گا، کسی سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہے، دراصل میڈیا اپنی بھوک مٹانے کے لیے ایسی خبریں چلاتا ہے۔ نو مئی واقعے میں اگر میں خود ملوث ہوتا تو اپنے لیے سزا کا متمنی ہوتا ایسے میں کسی سے ڈیل یا ڈھیل کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ پنجاب میں بینائی کے حوالے سے وزیر صحت نے آگاہ کیا ہے، بہت سارے میڈیکل اسٹورز سے انجکشن کو ہٹا دیا گیا ہے، غفلت برتنے والوں کا تعین کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ انجکشن کسی اور مرض کیلیے تھا جسے ذیابیطس کے مریضوں پر بھی استعمال کیا گیا، واقعے میں ملوث افراد کو سزا دی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پرائیوٹائزیشن کا فیصلہ آئی ایم ایف کا نہیں بلکہ یہ اداروں کا خسارہ دور کرنے کیلیے ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ ان اداروں کو سبسڈی دیتے دیتے ملک دیوالیہ نہ ہوجائے، نگراں حکومت کے دور میں ایک یا دو اداروں کی نجکاری کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ انتخابی عمل میں انتظامی سطح پر کسی خاص گروپ کی مخالفت یا حمایت نہیں کی جائے گی، یقین دلاتا ہوں کہ انتخابی عمل صاف شفاف او رآزادانہ ہوگا، جمہوریت میں پرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، ہر سیاسی جماعت کے پرامن احتجاج کا تحفظ کریں گے، تاہم تشدد آمیز مظاہروں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ انتخابی حلقہ بندیاں آئینی ضرورت ہے، ہم نے قانون اور آئین کے مطابق عمل کرنا ہے، انتخابی حلقہ بندیوں پر اعتراض سابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کے وقت کیا جا سکتا تھا، الیکشن کمیشن بھی کوئی غیرقانونی کام نہیں کرسکتا۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو آئینی طریقے سے اقتدار سے الگ کیا گیا، آئین میں حکومت کی تشکیل اور ہٹانے کا طریقہ موجود ہے، سابق وزیراعظم امریکی سازش کے بیانیے سے خود پیچھے ہٹ گئے، بعض اوقات سیاستدان عوامی حمایت کیلئے ایسا بیانیہ بناتے ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ کی اڈیالہ جیل منتقلی
سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ کو ان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں گزشتہ روز راولپنڈی منتقل کردیا گیا ہے ،عدالتی فیصلے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور ٹرائل کورٹ نے اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا مگر پٹیشنرکو اٹک جیل منتقل کیا گیا۔حکم نامے میں کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زائدقیدیوں ،سیکورٹی خدشات پر اٹک جیل منتقلی ہوئی، آئی جی جیل خانہ جات کی سفارش پرسزا مکمل کرنے کے لیے اٹک جیل منتقل کیا گیا اور ہائیکورٹ نے 28 اگست کو سزا معطل کی تو سائفر کیس میں گرفتاری عمل میں لائی گئی۔عدالت نے کہا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا پٹیشنر کو اڈیالہ جیل شفٹ کرناسیکورٹی رسک ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی اسی مو¿قف کی تائید کی کہ پٹیشنر کواٹک جیل رکھاجائے۔تحریری حکم نامے میں کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے بعد پٹیشنر کاموجودہ اسٹیٹس انڈر ٹرائل قیدی کا ہے، اسلام آباد کے کیسز کے انڈر ٹرائل قیدیوں کواڈیالہ جیل میں رکھا جاتاہے اور صرف سزایافتہ قیدیوں کو پنجاب کی کسی بھی جیل میں شفٹ کیا جا سکتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جیل میں تمام سہولتیں مہیا کی جائیں جس کے وہ حق دار ہیں جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات پر عملدرآمد مکمل ہو گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کو پولیس کی بھاری نفری نے 15 گاڑیوں، دو بکتر بند اور ایک ایمبولینس کے ذریعے منتقل کیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل کی اس بیرک میں رکھا گیا جہاں دیگر سیاستدان بھی رہے، اس بیرک میں تین سابق وزرائے اعظم اور ایک سابق صدر مقیم رہے۔اس بیرک میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سابق وزیراعظم نواز شریف مہمان رہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کی منتقلی سے قبل اڈیالہ میں خصوصی انتظامات کئے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کو ایک مشقتی بھی دے دیا گیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کو کھانا اپنی مرضی کا ملے گا، جیل میں دیگر سہولیات بھی وی آئی پی پروٹوکول کے مطابق فراہم کی جائیں گی۔
نواز شریف کی وطن واپسی اور ایس کے نیازی کا تجزیہ
ایس کے نیازی ملک کے معروف میڈیا گروپ پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کے سربراہ ، معروف تجزیہ کار ، کئی کتابوں کے مصنف ، اینکر پرسن اور ریاست کی جانب سے تمغہ امتیار حاصل کرنے والے صحافی ہیں وہ بے لاگ اور لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کے عادی ہیں ، گزشتہ روز انہوں نے روز نیوز کے پروگرام سچی بات میں گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف کی لندن میں میٹنگز اور بیانیہ آئے روز سامنے آرہا ہے ، مختلف بیانیوں سے لگتا ہے کہ نوازشریف فی الحال پاکستان نہیں آئیں گے ،نوازشریف کے آنے کی خبریں ان کے بیانیے نے نفی کردی ہیں ، نوازشریف کو کسی جانب سے گارنٹی ملی تو وہ آجائیں گے ، نوازشریف کے معاملے میں نگران حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ایس کے نیازی کے کیئے گئے تجزیات ماضی میں سو فیصد درست ثابت ہوئے ہیں ، اس نازک وقت میں انہوں نے جو تجزیہ کیا ہے اس سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی وہ اندر کی بات نکالنے کے ماہر ہیں ، انہوں نے صحافت میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے اور مجید نظامی اور عرفان صدیقی کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں ، دونوں شخصیات با اصول اور باکردار ہیں اور ایس کے نیازی کا تو سارا کیرئیر بے داغ اور صاف ستھرا رہا ہے ، ایسے عالم میں ان کا یہ تجزیہ یقینا درست ثابت ہوگا ، اندرون خانہ نواز شریف کی آمد کے حوالے سے جو کیچڑی پک رہی ہے اس کی ایک ہلکی سی منظر کشی اس پروگرام میں موجود ہے ۔
اداریہ
کالم
نگران وزیر اعظم کا انٹر ویو ، ابہامات کی نفی
- by web desk
- ستمبر 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 967 Views
- 2 سال ago