ملک بھر میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کے باعث ہونے والے ہنگاموں کے بعد نگران وزیر اعظم تک یہ بات پہنچ گئی ہے کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے ہیں اور بجلی کے بلوں میں ان پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جس پر عوام احتجاجاً سڑکوں پر نکلنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ اب عوام جینا تقریباً محال ہوچکا ہے اور وہ ایک جانب دیکھتے ہیں کہ معمولی سہولت پر وہ تیرہ قسم کے مختلف ٹیکسز ادا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اشرافیہ اور بالادست طبقات کو بجلی ، پیٹرول اور دیگر تمام سہولیات مفت میں استعمال کررہے ہیں جبکہ انہیں بھاری مالیت کی بنیاد پر تنخواہیں بھی ہر بار باقاعدگی سے ادا کی جارہی ہے ، اس کے علاوہ گھروں میں کام کرنے کیلئے مالی ، نائب قاصد، ڈرائیور ، باورچی ، چوکیدار تک کی سہولیات بھی سرکاری تنخواہ پر مہیا کی جاتی ہیں جبکہ غریب ملازمین کرائے کے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں ، اپنے تمام گھریلو کام خود کرنے پڑتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ بجلی ، گیس کے بھاری بل بھی اداکرنے پڑتے ہیں ، ایک ہی معاشرہ میں رہنے والے طبقات کے درمیان جب طبقاتی تفریق پیدا کردیا جاتی ہے تو بغاوت جنم لیتی ہے اور عوامی انقلاب کا راستہ کھلتا ہے ، گزشتہ 76سالوں میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے عوام کو کسی قسم کی کوئی سہولت فراہم نہیں ، الٹا مختلف قسم کے ناجائز ٹیکس لگاکر ان کے کپڑ ے اتارنے کی کوشش کی ہے ، یہی رویہ عوام کو اس سٹیج پر لے آیا ہے کہ وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ ایک ریڑھی والا ، تانگے والا ،رکشے والا یا گلی محلے میں پھرنے والا بنجارا جب بجلی کا بل ادا کرنے جاتا ہے تو اسے اس بل پر انکم ٹیکس ، ویلتھ ٹیکس ، ودہولڈنگ ٹیکس ، سرچارج ، ایکسٹرا سر چارج جیسے ٹیکسز بھی ادا کرنے پڑتے ہیں ، کیا ٹیکس وصول کرنے والوں کو ایک غریب شہری سے یہ ٹیکس وصول کرتے ہوئے شرم نہیں آتی ، کیا کبھی ان کے ضمیر نے انہیں یہ ٹیکسز وصول کرنے پر جھنجوڑا نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ بالادست طبقات بے حس ہوچکے ہیں اور ان کا یہ اقدام ملک دشمنی کے مترادف ہیں کیونکہ انہیں اقداما ت کی بدولت ملک کا نوجوان طبقہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں ، گزشتہ 14ماہ کے دوران 5لاکھ سے زائد پاکستانی جوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں مگر اس پر حکمرانوں کو کوئی اثر نہیں پڑا ، بجلی کے بلوں میں اضافے پر کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں بولی مگر جب عوام اس ظلم کیخلاف سڑکوں پر آئی اور احتجاج شروع کیا تو سیاسی پارٹیوں نے ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے اخباری بیانات داغنا شروع کردیئے ہیں ، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے بھی بجلی کی قیمت میں فوری کمی لانے کا مطالبہ کیا ہے ، سوال یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تو پی ڈی ایم کی حکومت نے کیا تھا اور اس وقت یہ دونوں جماعتیں حکومت میں شامل تھیں ، سوال یہ ہے کہ جب عوام کے ساتھ زیادتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اس وقت ان جماعتوں نے ایسا کرنے سے حکومت کو منع کیوں نہیں کیا ، بات تلخ ہے مگر کہنے سے رکا نہیں جاتا کہ عوام کو لوٹنے میں تمام سیاسی جماعتیں ملوث ہیں اور عوام کو لوٹنے کی یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہے ، اب وزیر اعظم کہیں یا کوئی سیاستدان عوام تمام سیاستدانوں کی اصل حقیقت جان چکے ہیں ، گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کو بجلی چوری کی روک تھام کا روڈ میپ اور بجلی کے شعبے کی اصلاحات اور قلیل، وسط اور طویل مدتی پلان جلد از جلد پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے یہ ہدایات بجلی بِلوں میں اضافے پر ہنگامی اجلاس کے پہلے دورکی صدارت کرتے ہوئے جاری کیں ۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو جولائی کے بجلی کے بلوں میں اضافے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک کو نقصان پہنچے، ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے ملکی خزانے پر اضافی بوجھ نہ ہو اور صارفین کو سہولت ملے۔ ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی اور وزیرِ اعظم انکے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کریں۔متعلقہ وزارتیں اور ادارے مفت بجلی حاصل کرنے والے افسران اور اداروں کی مکمل تفصیل فراہم کریں۔ عام آدمی کی نمائندگی کررہے ہیں، وزیرِ اعظم ہاوس اور پاک سیکریٹریٹ میں بجلی کا خرچہ کم سے کم کیا جائے اوراگر میرے کمرے کا اے سی بند کرنا پڑا تو بے شک بند کر دیں۔ مختلف سرکاری ملازمین کو مفت یونٹس کے معاملہ پر بھی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ سرکاری دفاتر میں بجلی کے استعمال میں کمی کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں گے۔ ادھربجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ اور بھاری ٹیکسز کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں تاجر برادری سمیت عام شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ملک کے مختلف شہروں میں مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج میں عوام بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں اور ارباب اختیار سے بجلی سستی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے شہری حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کرتے رہے۔توقعات سے بڑھ کر بجلی کے بل آنے پر لاہور کے عوام بھی بلبلا اٹھے، لاہور میں بجلی بلوں میں اضافے کے خلاف مظاہرین نے بجلی کے بل جلائے اور مہنگی بجلی پر حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔رسالپور میں عوام بجلی کے بھاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں عوام نے مردان نوشہرہ جی ٹی روڈ مکمل طور پر ہر قسم کی ٹرایفک کیلئے بلاک کر دیا، بجلی بلوں کے خلاف تاجران نے تجارتی مراکز اور دکانیں بند کر دیں، مشتعل مظاہرین نے واپڈا پیسکو اور حکومت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ بجلی کے بھاری بلوں نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، حکومت بجلی کے بلوں سے ظالمانہ ٹیکس کٹوتیاں ختم کرے، ریلیف نہ دیا گیا تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔فیصل آباد میں بجلی کے بلوں کے خلاف شہریوں نے شیخوپورہ روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے روڈ کو بلاک کر دیا، عوام نے بجلی کے بلوں میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے فیسکو کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔بہاولپور میں واپڈا کے اضافی بلوں کے خلاف شہریوں نے کے ایل پی روڈ سندھ اور پنجاب کو ملانے والی قومی شاہراہ بلاک کردی ۔بجلی کے اوور بلوں پر ملتان میں صارفین نے بلال چوک پر احتجاج ریکارڈ کروایا، مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا کر مپیکو کے خلاف شیدید نعرہ بازی کی اور ٹائر جلا کر چوک کو چاروں طرف سے بلاک کرکے بجلی کے بل جلا دیے۔مہنگی بجلی اور ٹیکسز کی بھرمار کیخلاف صادق آباد میں تاجر تنظیموں نے احتجاجی ریلی نکالی گئی ۔بجلی بلوں میں ظالمانہ ٹیکسوں اور بڑھتی قیمتوں کیخلاف حجرہ شاہ مقیم کے عوام نے بھرپور احتجاج کیا۔دیپالپور میں بھی شہریوں نے دوران احتجاج بجلی کے بل جلا دیے اور مطالبہ کیا کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ فی الفور واپس لے اور شہریوں کا معاشی قتل عام بند کرے۔ مہنگائی کے بدترین طوفان میں عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔
مہنگائی کا بڑھتا ہوا طوفان
حکومت ایک طرف غریب عوا م کو بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے مار رہی ہے تو دوسری جانب اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں ہونے والے ایک دم اضافے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے مگر صوبائی اور وفاقی سطح پر کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرسکے، کبھی اچھے زمانے میں ڈپٹی کمشنر اور پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اپنے ٹھنڈے دفاتر سے باہر نکل کر مارکیٹیں اور بازاروں میں پھرکر اشیائے خوردنی کے نرک چیک کیا کرتے تھے مگر شاید اب ایسا کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے ، حالانکہ پنجاب میں تو نگران حکومت نے اربوں روپے کی لاگت سے نئی جدید ترین ، پرتعیش گاڑیاں بھی اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کو دےدی ہیں مگر پھر بھی وہ اپنے دفاتر سے نکلنے کیلئے تیار نہیں ،وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق ہفتہ وار پورٹ جاری کر دی، رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے 22 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔12 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی جبکہ 17اشیا کی قیمتوں میں استحکام رہا، ہفتہ وار مہنگائی 0.05 فیصد اضافے سے 25.34 فیصد ہوگئی۔ 20 کلو آئے کا تھیلا 2600 سے 3200روپے میں فروخت ہونے لگا۔پیاز، دال مسور، لہسن، انڈے اور دال ماش کی قیمت میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق ٹماٹر ، چکن، آلو، کیلے، تھی ، کوکنگ آئل ، گندم کا آٹا اور ایل پی جی کی قیمت میں کمی ہوئی۔سالانہ بنیاد پر گندم کا آٹا 12 فیصد سے زائد مہنگا ہوا۔ ایک سال میں چائے 94 فیصد ، چاول 90 فیصد ، مرچ 86 فیصد مہنگی ہوئی، کہیں انتظامیہ کی غفلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نوید انقلاب نہ ٹھہرے۔
اداریہ
کالم
نگران وزیر اعظم کا بجلی بلوں میں اضافے پر نوٹس
- by web desk
- اگست 29, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 679 Views
- 2 سال ago
