اداریہ کالم

نگران وزیر اعظم کا مضمون ،زمینی حقائق کی درست عکاسی

برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا ایک مضمون شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان پر غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا بوجھ برطانیہ سے زیادہ ہے اور پاکستان کو پورا حق ہے کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لکھا کہ پاکستان نے جب بھی افغان حکومت کےساتھ سیکورٹی کے مسائل پر بات چیت کی توانہوں نے کہاکہ پہلے اپنا گھر سنبھالو۔ پاکستان نے آخرکار فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم اب اپنا گھر سنبھالیں گے ہم نے انکا مشورہ مان لیاہے۔پاکستان تاریخ کے دوراہے پر ہوتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں غیر دستاویزی افراد کوٹھہرا کر اپنی قومی سلامتی پر مزید سمجھوتہ نہیں کر سکتا ۔ پاکستان میں گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران چار سے پانچ ملین کے درمیان تارکین وطن آچکے ہیں جو آئر لینڈ کی آبادی کے برابر ہیں۔مہمان نوازی پاکستان کے ڈی این اے میں ہے ،ہم نے طویل عرصہ جتنے لوگوں کو جگہ دے سکتے تھے انہیں یہاں رکھنے کیلئے بہت محنت کی جبکہ جن کا یہاں رہنے کا کوئی حق بھی نہیں تھا ان کو بھی رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کیلئے مناسب موقع دیا۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا کے ملک غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ترک وطن کا یہ عمل جنگوں، ماحول کی تبدیلی اور معاشی مواقع کی تلاش کےساتھ جڑا ہوا ہے۔ مغربی ممالک نے بھی غیر ملکیوں کے انتظام کے حوالے سے تکلیف دہ فیصلے کیے ہیں۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ برطانوی حکومت کا غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا منتقل کرنے کا منصوبہ اسی دباو¿ کی علامت ہے۔ اس تجویز پر گرما گرم بحث اور اس منصوبے کو پٹڑی سے اتارنے کی متعدد کوششیں پالیسی سازوں کےلئے بڑی مشکلات کی عکاسی کرتی ہیں کیوں کہ وہ انسانی حقوق اور سخت حقائق کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرانس کو بھی مشکلات کا سامنا ہے،جبکہ اٹلی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ یورپ کا پناہ گزین کیمپ بن سکتا ہے۔حالیہ برسوں میں کئی لاکھ پناہ گزینوں کے لیے درکھولنے کے بعد جرمنی بھی تناو¿ محسوس کر رہا ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے سخت اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔امریکہ میں بھی صورت حال اچھی نہیں ۔نگران وزیر اعظم نے درست لکھا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ بالکل مختلف نوعیت کا ہے۔ گذشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران 40 سے 50 لاکھ تارکین وطن پاکستان میں آئے جو آئر لینڈ کی آبادی کے برابر ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔پناہ گزینوں سے متعلق 1951کے کنونشن اور1967کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے باوجود ہم نے فراخ دلی سے پناہ گزینوں کی واحد سب سے بڑی تعداد کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔مہمان نوازی پاکستان کی فطرت میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی قانونی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور انہیں پورا کرتے رہیں گے۔ہم نے بہت طویل عرصے تک بڑی محنت کی تاکہ اتنے لوگوں کو جگہ دی جا سکے جتنوں کو دی جا سکتی ہے اور ان لوگوں کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کا وسیع موقع دیا جائے، جن کو پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔بدقسمتی سے رضاکارانہ طورپر وطن واپسی کے بار بار مواقع اور دستاویزات کے بغیر مقیم غیر ملکیوں کو رجسٹر کرنے کی متعدد حکومتی کوششوں کے باوجود غیر ملکیوں کی بڑی تعداد نے اپنی حیثیت کو باضابطہ بنانے سے مسلسل انکار کرتے ہوئے چھپے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ پاکستان نے محنتی اور قانون کی پاسداری کرنے والے بہت سے تارکین وطن سے فائدہ اٹھایا لیکن اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کی مجموعی سماجی، اقتصادی اور سکیورٹی قیمت بہت زیادہ ہے۔ بہت سے لوگ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے ہیں۔ وہ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ قانونی کارکنوں کو دی جانے والی اجرات مایوس کن ہے۔ وہ جرائم پیشہ زیر زمین دنیا کے استحصال کا بھی شکار ہیں۔ انڈر ورلڈ کے تمام پریشان کن روابط خطے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہیں۔ اگست 2021 سے اب تک کم از کم 16 افغان شہریوں نے پاکستان میں خودکش حملے کیے۔ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے 65 دہشت گردوں کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر کی گئی۔ کوئی بھی ذمہ دار حکومت ایسے خدشات کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ غلط معلومات اور بے بنیاد الزامات خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح کے کسی بھی پروگرام میں ہمیشہ خاص طور پر چند مشکل معاملات ہوں گے۔ہم نے وطن واپس بھیجے جانے والے تمام افراد کی فلاح و بہبود کے لیے بھرپور طور پر ذمہ داری محسوس کی اور اب بھی محسوس کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام میں شامل تمام عہدے داروں کو سخت احکامات دیے گئے ہیں کہ وہ ملک بدر کیے جانے والے افراد کا احترام کریں اور ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھیں۔ مزید برآں ہمارا زور رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار انداز میں واپسی پر ہے نہ کہ ملک بدری پر۔ افغانستان واپس جانے والوں میں سے 93 فیصد نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا۔اہم بات یہ ہے کہ رجسٹریشن کارڈ کے ثبوت کےلئے درخواست دینے والے 14 لاکھ 60 ہزار افغانوں میں سے کسی کو بھی واپس نہیں بھیجا گیا۔ نہ ہی آٹھ لاکھ کے لگ بھگ وہ لوگ واپس گئے جن کے پاس افغانستان کے شہریت کارڈ ہیں۔ نگران وزیراعظم نے اپنے مضمون میں جن نکات پر بات کی وہ زمین حقائق کی درست عکاسی کرتے ہیں۔افغان حکام کسی کی شہہ پر چشم پوشی کر رہے ہیں تو یہ دونوں برادر ممالک کے مفاد میں نہیں،پاکستان امن اور دوستی خواہش مند ہے لیکن وزیراعظم کی یہ بات بھی درست کہ ملکی سیکورٹی کی قیمت پر نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کابیان
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملز نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کی حمایت جاری رکھیں گے،تمام سیاسی رہنماوں کے ساتھ بات کرتے ہیں جو پاکستانی عوام منتخب کرتے ہیں، پاکستانی سیاسی جماعتوں سے متعلق کوئی پوزیشن نہیں لیتے۔ ترجمان محکمہ خارجہ نے پاکستان میں دہشت گردی میں شہید سیکورٹی اہلکاروں کے اہلخانہ سے اظہار تعزیت کیا اور پاکستان امریکہ کا بڑا نان نیٹو اتحادی اور پارٹنر ہے ، پاکستان کے ساتھ علاقائی سلامتی اور دفاعی شراکت کے منتظر ہیں۔ پاکستانی آرمی چیف محکمہ خارجہ اور پینٹاگون سمیت دیگر عہدیداروں سے ملاقات کیلئے واشنگٹن میں تھے۔ بلاشبہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کےخلاف الزام تراشی کرتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بیرونی ممالک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی دعوت دیتی ہیں۔ عام انتخابات میں میں ہر رجسٹرڈ پارٹی کو انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور اپنے امیدوار انتخابی میدان میں اتارنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور اگر قانون کسی پارٹی کو اس کی مخصوص سرگرمیوں کے باعث انتخابی میدان میں اترنے کی اجازت نہ دے یا کسی امیدوار کےلئے کوئی قانونی اور آئینی قدغن آڑے آ جائے تو یہ پاکستان کا اپنے گھر کا معاملہ ہے جس نے آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق طے ہونا ہے۔ اس وقت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ یہ8فروری دوہزارچوبیس کو انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں اور اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں جبکہ نگران حکومت بھی انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کے عہد پر کاربند ہیں چنانچہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بھی پاکستان میں آزادانہ انتخابات کے حوالے سے بیان نیک شگون ہے۔ ماضی میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اورآئندہ بھی یہی امید کی جارہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی کی منتخب حکومت امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات کاتسلسل جاری رکھے گی۔آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیرکادورہ امریکہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ دورے کے دوران ،دفاعی امور پر بات بھی ہوئی اس دوران دفاعی اور حکومتی حکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوئیں اوریہ دورہ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانے ، غلط فہمیاں دور کرنے اور دوطرفہ تعاون کے حوالے سے دور رس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri