میں خوش قسمت ہوں جسے اس دور میں بھی بابا کرمو جیسی شخصیت میسر ہے۔بابا جی کی خوبصورتی یہ ہے کہ جس چیز کو وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ یہ دوسروں کےلئے بھی پسند نہیں کرتے ۔ مثلاً جب آپ بابا کرمو کے پاس بیٹھے ہوں تو فون کا استعمال نہ خود کرتے ہیں اور نہ دوسرے کو کرنے دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے سننے اور سنانے کے لئے اکھٹے بیٹھتے ہیں تو یہ فون اکھٹے بیٹھنے کا مقصد ختم کر دیتا ہے ۔ لہذا جب آپ کے پاس ہوتے ہیں فون بند رکھتے ہیں ۔ یہ بھی تربیت کا حصہ ہے ۔ پوچھا بابا جی تعلیم و تربیت ہے کیا ۔ کہا یہ دو الک الک چیزوں کے نام ہیں مگران دونون کا جھولی دامن کا ساتھ ہے ۔ تعلیم آپ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں سے حاصل کرتے ہیں ۔ تربیت گھر سے شر وع ہو تی ہے ۔ تربیت میں آپکے پہلے استاد آپکے والدین ہوتے ہیں ۔ جو بتاتے ہیں صبح اٹھ کر سب سے پہلے سلام کرنا ہے ۔کھانا دائیں ہاتھ سے اور بسم ا ﷲ پڑھ کر کھانا ہے ۔اونچی آواز میں بات نہیں کرنی ۔جھوٹ نہیں بولنا ۔چھوٹوں بڑوں سے تمیز سے پیش آنا ۔فقیر کو کچھ دے دینا ۔فقیر کے ساتھ غصے سے پیش نہیں آنا ۔ مسافر کو راستہ بتانا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تربیت آپ گھر سے سیکھتے ہیں ۔پھر ساری عمر اسی پہ عمل کرتے ہیں ، پھر یہی تربیت اپنے بچوں کو منتقل کرتے ہیں ۔اس فون کے آنے سے اب بچوں کو والدین تربیت دینے سے دور ی اختیار کر چکے ہیں ۔ بچہ اگر بات کرنا چاہتا ہے تو ایک فون آپ اس بچے کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور خود فون پر مصروف ہو جاتے ہیں ۔ پھر بچہ بھی چپ اور آپ بھی چپ۔ایسا کرنے سے دونوں کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے ۔مگر اس کے نتائج دیر سے سامنے آتے ہیں ۔ فون کے زیادہ استعمال سے دماغ اور آنکھیںکام کرنا بند کردیتی ہیں ۔ وہ بچہ جس نے بڑے ہو کر آپ کا سہارا اور سوسائٹی کا ایک اچھا انسان بنا تھا وہ نہیں بن پاتا ۔دماغ اور آنکھوں کی بیماری سے اب وہ آپ پر بوجھ اور سماج پر بوجھ بن کر زندہ ہے ۔ یہ ایسا اسلئے ہوا کہ آپ اس تربیت سے خود ناآشنا تھے لہذا یہ تربیت اپنے بچوں کو نہ دے سکے ۔تعلیم ڈگریوں کا نام ہے ۔جسے رٹا مار کر حاصل کر رہے ہیں ۔ پوچھا بابا جی آجکل یہ رونا رویا جا رہا ہے ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ۔ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے ۔ کیا معاشی حالات ٹھیک ہو سکیں گے ۔ بابا جی نے ایک لمبی آہ بھری ۔آنکھیں بند کیں ،جیسے کئی غوطہ لگایا ہو ۔ پھر اٹھے چائے کا کپ دیا کہا کیا یہ درست ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ لگا تھا ۔ یہاں اسلام کے مطابق لوگ اپنی زندگیاں بسر کریں گے ۔ کیا اب ایسا ہو رہا ہے۔ہم اسلام کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ جب بھی کوئی غیر مسلم ہمارے مذہب کی توہین کرتا ہے۔ ہم سبھی اسے مارنے مرانے پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔احتجاج کرتے ہیں ۔ سڑکیں بلاک کرتے ہیں۔ ایمبولنس مریض کو وقت پر اسپتال نہیں لے جا سکتی ۔ملکی املاک کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔جلاﺅ گھیراﺅ کرتے ہیں ۔ایسا سب اسلئے کہ اس نے ہمارے مذہب ہمارے نبیﷺ کی شان میں بے حرمتی کی ہے ۔ لیکن گستاخ رسول کو ہمارے ایکشن سے کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ وہ خوش ہوتا ہے۔
ایسا احتجاج کرنے سے ہم اپنا نقصان خود کر بیٹھتے ہیں۔بابا جی نے کہا کبھی سوچا ہے ہم اس اسلامی مملکت میں ہم مسلمان ہو کر اپنے مذہب کا مذاق، توہین رسالت ہم خود نہیں کر رہے ہوتے ہیں ۔اس پر احتجاج ہونا چائیے مگر نہیں کرتے ۔ ہمارا اسلام ہمارا مذہب ہمارے نبی کا فرمان ہے کہ چیزوں میں ملاوٹ نہیں کرنا ، جھوٹ نہیں بولنا ،الزام تراشیاں نہیں کرنا کسی کا حق نہیں مارنا ۔مال جمع نہیں کرنا ۔ سود کا کاروبار نہیں کرنا۔ انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا ۔کیا بطور مسلمان ہم ایسا کر رہے ہیں ۔ اسلام تو غیر مسلم ممالک میں دکھائی دیتا ہے ۔یہاں نہیں ۔ غیر مسلم وہ کچھ کر ہے ہیں جو ہمارا اسلام ہمیں کر نے کو کہتا ہے ۔ ہم وہ کچھ کر رہے ہیں جس کے کرنے سے اسلام نے ہمارے انبیا نے ہمیں منع کر رکھا ہے ۔ ہر کام دو نمبر مہر چیز دو نمبر ۔ہم ہر دو نمبر چیزوں کے ماسٹر کہلاتے ہیں ۔ اس وجہ سے ہم سے کوئی ملک بزنس کرنا پسند نہیں کرتا ۔ معاشی طور پر اپنے راستے ہم نے خود بند کر رکھے ہیں ۔جبکہ قصور وار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔ ایسا ہی حال سیاسی لیڈران کا ہے ۔حکومت میں آتے دو نمبر طریقے سے مگر جاتے ہوئے دو نمبر طریقے سے الزامات دوسروں پر لگاتے ہیں ۔ جو انہیں لاتے ہیں ان کا یہ بتاتے نہیں مگر جو انہیں گراتے ہیں ان کو رسوا کرتے ہیں ۔بھٹو شہید کے دور میں ملک میں انڈسٹریی کار خانے ہوا کرتے تھے ۔ کراچی سائیڈ کا علاقہ کارخانوں فیکٹریوں کی وجہ سے مشہور تھا ۔ دنیا کی ادویات کی کمپنیاں یہاں تھی ۔ دنیا کی بڑی اسٹیل مل یہاں تھی ۔ پھر آمریت کا دور آیا ۔ایک صاحب کو کراچی کاسیاسی لیڈر بنا کر سیاسی جماعت کھڑی کر دی ۔ اسے اس جماعت کا ہیرو بنا دیا ۔ مزدوروں سمیت کار خانوں کو جلایا ۔ ۔ عدالتوں سے غلط فیصلے کروائے ۔ غلط فیصلوں سے حکمرانوں کو پھانسی دی ،انہیں گھر بھیجا گیا۔کہا جاتا ہے تھانے ملک کے رشوت کا گڑھ ہیں وہاں لکھا جاتا ہے رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ،کچہریوں میں جھوٹے گواہ مل جاتے ہیں ۔ وہاں لکھا ہوتا ہے جھوٹی گواہی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ۔ہمارے اسپتال موت بانٹے ہیںجہاں لکھا جاتا ہے جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا سارے انسانون کو بچایا ۔ہمارے بازار جھوٹ خیانت ملاوٹ کے اڈے ہیں ۔وہاں لکھا ہوتا ہے جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ۔ہم جو لکھتے ہیں پڑھتے ہیں وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جو کرتے ہیں وہ ہمارا عمل ہے ۔ ہم اپنے کرتوت ٹھیک کرتے نہیں ۔کیا اسلام کے مطابق زندگیاں بسر کرنے سے کوئی روکتا ہے ایساا کرنا تو اپنے اختیار میں ہے ۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ،نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ۔
کالم
نہ تعلیم نہ تربیت حالات کیسے بدلیں گ
- by Daily Pakistan
- جنوری 31, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 790 Views
- 2 سال ago