کالم

نیشنل میری ٹائم پالیسی 2025

نیشنل میری ٹائم پالیسی 2025 کو بجا طور پر عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کہا جارہا ہے ، درحقیقت نیشنل میری ٹائم پالیسی کا مقصد وطن عزیز کے بحری شعبہ کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنا ہے ، تیزی سے تبدیل ہونے والی اس دنیا میں بحریہ کی اہمیت دوچند ہوچکی، اب یہ تصور کرنا کسی طور پر غلط نہ ہوگا کہ امن ہو یا جنگ سمندر اور فضا ہی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ، اس پس منظر میں وطن عزیز میں نئی میری ٹائم پالیسی کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی ، علاقائی اور عالمی سطح پرجس طرح کے حالات واقعات رونما ہورہے اس کا بجا طور پر تقاضا تھا کہ پاکستان کی میری ٹائم پالیسی میں ٹھوس تبدیلی لائےجائے ، مذکورہ پالیسی کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی 90 فیصد تجارت سمندر کے راستے سے ہوتی ہے لہذا لازم ہے کہ بندرگاہوں ، جہاز رانی ، ماہی گیری، میری ٹائم سیکورٹی اور ماحولیاتی تحفظ پر توجہ مرکوز کی جائے ، پاکستان کا 1000 کلومیڑ سے زائد طویل ساحل اور 290000 مربع کلومیٹر پر پھیلی سمندری حدود ہیں۔ مذکورہ اعداد وشمار گواہ ہیں کہ اگر میری لینڈ پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو وطن عزیز کی اقتصادی ترقی میں موثر انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے، دنیا میں بلیواکانومی کسی بھی ریاست کو معاشی استحکام بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، پاکستان میں مختلف ادوار میں بلیو اکانومی کے فروغ کے لیے کاوشیش تو ہوئیں مگر ان پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا جاسکتا ،مثلا سال 2020 کو بلیو اکانومی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا مگر پھر کورونا وائرس کی وجہ سے قابل زکر پیش رفت دیکھنے کو نہ ملی ، ماضی کی حکومتوں کی جانب سے بیلوکانومی کے شعبے میں قابل زکر اقدمات اٹھانے نہ وجہ سے پاکستان پڑوسی ممالک مثلا بھارت اور بنگہ دیش سے کا مقابلہ نہیں کرسکا، ماہرین کے مطابق اس محاذ پر پچھے رہنے کی بنیادی وجہ جہاں آگہی میں کمی کو قرار دیا جاسکتا ہے وہی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کا نہ ہونا بھی اہم رہا ، تاریخی طور پر جب انسان نے معاشی سرگرمیوں آغاز کیا تب ہی سے بلیو اکانومی وجود میں اگی ، جان لینا چاہے کہ بلیواکانومی سے ہی ماہی گیری ، جہاز رانی ، سیاحت اور آف شعور توانائی جیسے شبعے منسلک ہیں،اب حکومت کی نئی میری ٹائم پالیسی کی بدولت جہاں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے وہی سرمایہ کاری کے فروغ میں اضافہ متوقع ہے ، مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت خواہاں ہے کہ میری ٹائم پالیسی پر اس طرح سے عمل کیا جائے کہ پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر بحری تجارتی مرکز بنے میں مدد ملے، اب تک بحری تجارت کے حوالے سے جو اعداد وشمار دستیاب ہیں وہ کسی طور پر تسلی بخش نہیں مثلا آج پاکستان معیشت کا سمندری تجارت میں حصہ محض 12 فیصد ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس محض 12بحری جہاز ہیں، اب نشینل میری پالیسی کا ہدف یہ ہے کہ سال 2047 تک یہ شرح 30 فیصد تک بڑھایا جائے، اس سلسلے میں حکومت منعظم انداز میں کوشش کرے گی کہ پاکستان کے نجی شعبے کو جہاز رانی کی صنعت میں سرمایہ کاری کےلئے راغب کیا جائے، پاکستان کی نیشنل میری پالیسی کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے تحت گودار کو علاقائی ہی نہیں عالمی معیار کی تجارتی بندرگاہ بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ، اقتصادی ماہرین کی اکثریت اس پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ سی پیک کے جاری منصوبے کے تناظر میں گودار کا بطور تجارتی بندرگاہ کے طور پر ثابت ہونا ملکی اقتصٓادی ترقی میں کلیدی کردارا ادا کرسکتا ہے ، نئی حکومتی میری پالیسی کے تحت تجارت کے فروغ کےلئے ریلوے اور سڑک کے روابط کو بہتر اور موثر بنایا جائے گا، وزیر اعظم پاکستان شبہازشریف کی حکومت کا پختہ ارادہ یہ بھی ہے بندرگاہی آپریشنز کو ڈیجیٹلائز کیا جائے تاکہ کاغذی کاروائی کم سے کم ہوکر کارگو کلئیرنس کے عمل کو تیز اور غلطیوں سے پاک کیا جاسکے، حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ گودار اور کراچی کو جدید شپنگ اور لاجسٹکس مراکز میں تبدیل کیا جائے تاکہ بلیواکانومی کے پس منظر میں خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ موثر انداز میں مقابلہ کیا جاسکے ، یاد رہے کہ ماضی میں جہاز رانی اور جہاز ری سائیکلنگ کےلئے گڈانی شپ برکینگ یارڈ پاکستان کا بڑا صنعتی مرکز تھا مگر پھر ماحولیاتی آلودگی اور مزدوروں کے تحفظ کے ناقص معیار کے سبب مذکورہ صنعت زوال پذیر ہوگی ، اب نیشنل میری پالیسی 2025 کا مقصد گڈانی شپ برکینگ یارڈ پاکستان کی بحالی اہم ہدف قرار دیا گیا ہے ، اس سلسلے میں حوصلہ افزا یہ ہے کہ عالمی سطح پر 2032 تک 15000سے زائد بحری جہازوں کو ری سائیکل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لہٰذا پاکستان کے پاس مذکورہ شعبے میں خود کو منوانے کا بہترین موقعہ ہے ، پاکستان کی بلیو اکانومی کے حوالے سے خوشخبری یہ ہے کہ اس شعبے میں دو ارب ڈالر سے زائد برآمدات کی صلاحیت موجود ہے مگر اب تک بڑی رکاوٹ ہمارے ہاں رائج پرانے طریقے ، ناقص انفراسٹرکچر اور غیر قانونی ماہی گیر ہے جس سے اب شہباز شریف حکومت حقیقی معنوں میں جان چھڑانے کےلئے پرعزم دکھائی دیتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے