اگرچہ ستم ظریف دس پندرہ منٹس پہلے تک اپنی اس بات پر قائم ہے کہ ؛ اکیس اکتوبر کو کسی بھی معقول یا نامعقول وجہ کو بنیاد بنا کر نواز شریف اپنی پاکستان آمد کو موخر کر دیں گے ۔ پہلے ستم ظریف کا کہنا تھا کہ نوازشریف چند سابق جرنیلوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کو بنیاد بنا کر اپنے سول اتھارٹی کی فوقیت و فضیلت والے بیانیے کو تقویت دیتے ہوئے پاکستان میں اتریں گے۔ چونکہ وہ ایک جلاوطن راہنما نہیں ،بلکہ اصطلاحاً ایک مفرور آدمی ہیں ،جو بیماریوں کے بہانے اپنے جان لیواامراض کا علاج کرانے کی غرض سے لندن اس پیمان کے ساتھ گئے تھے کہ بس ابھی آیا ۔ان کی ضمانت دینے والا ان کا برادر خورد تھا۔تو یہ گرد ونواح کی اتھارٹیز سے عہد و پیمان کرکے سٹک لیے تھے۔اب جس الیکشن کے امکان کو بنیاد بناکر وہ پاکستان آنے کا اعلان کیے بیٹھے ہیں، اس کے آئندہ دو تین سال تک موخر ہونے کو ممکن بنانے کےلئے ن لیگ کے بیشتر زعما نے طرح طرح کے سفلی اعمال اور جادو ٹونے شروع کر رکھے ہیں۔نواز شریف کو جب بوساطت مجاز یہ اطلاع پہنچا دی گئی کہ جس بیانیے کا پٹکا وہ تفریح کے طور گلے میں لٹکا کر پاکستان اترنا چاہتے ہیں ، وہ بھائی لوگوں کو قبول نہیں ہے ،لہٰذا وہ حسب معمول لندن ہی میں رہ کر لطف اندوز ہوتے رہیں۔اسکے بعد نواز لیگ کی قیادت نے سر جوڑ کر کامل غور وفکر کے بعد فیصلہ کیا کہ اب نواز شریف سابق جرنیلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر کے اسٹیبلشمنٹ کو چھیڑنے سے مکمل گریز اور کامل پرہیز کریں گے،اور اس کے عوض وہ مملکت کی معاشی بحالی کے حوالے سے اپنا پروگرام ترتیب دے کر پاکستان کی طرف منہ اور قدم بڑھائیں گے۔یہ انقلابی فیصلہ کن پیہم اجلاسوں میں کیا گیا ہے اس میں نوازشریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے علاوہ اسحق ڈار ، طلال چودھری ،ملک احمد خان اور عطاتارڑ وغیرہ شامل شامل تھے ۔ عطا تارڑ سے دھیان رفیق تارڑ کی طرف جاتا ہے۔یہ تارڑ لوگ بنیادی طور پر مجلس احرار کی باقیات ہیں۔وہ جو اصل مسلم لیگ ہوا کرتی تھی اس کی مخالفت ان کا شیوہ اور جناح اور اقبال کی تضحیک ان کا شعار رہا۔ رفیق تارڑ کی وجہ شہرت اگرچہ بریف میں بند رشوت کی ترسیل و تقسیم رہی ،لیکن انکی ایک پہچان فحش لطیفہ گو کی بھی رہی ہے ۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت پر ان کے ہاں افسوس کرنے کےلئے یہ صاحب دیگر ججزکے ساتھ موجود تھے اور جب یہ افسوس والے گھر میں ساتھی ججز کو فحش لطیفہ سنا کر قہقہے لگا رہے تھے ،تب انہیں ایک مہذب ڈانٹ بھی کھانی پڑی تھی لیکن بے عزتی وہ محسوس کرے ،جس کی کوئی عزت ہو۔ ممکن ہے کہ نواز شریف کی گزشتہ سے پیوستہ حکومت کو اپنے اذکار رفتہ حربوں اور طریقوں سے ختم کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار رہا ہولیکن یہ بھی امر متحقق ہے کہ نواز شریف جیسے غیر سیاستدان میٹیریل کو سیاستدان بنانے میں بھی انہی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔اور پھر مجروح مملکت پاکستان میں جس قدر نواز شریف اینڈ کمپنی کو نوازا گیا ،اس کی مثال ہماری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ نواز شریف کو تمام تر وارداتوں کے باوجود تین بار وزیر اعظم بننے میں مدد دی گئی ۔ہر بار نوازشریف نے اپنی مال سمیٹ مہارت کا پہلے سے زیادہ منظم اور موثر مظاہرہ کیا۔اسی دوران جاتی عمرہ امرتسر کے اس مہاجر خاندان نے چپکے سے ایک اور ہجرت کرلی اور لندن کو اپنا تیسرا وطن بنالیا ۔ اب نواز شریف کے دونوں بیٹے لندن میں مقیم اپنی دولت ،اپنے کاروبار ،اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گلیوں بازاروں میں پڑنے والی گالیوں سے لطف اندوز ہو کر گزار رہے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے ڈیڑھ سال کے دوران چچا میاں شہباز شریف کی حکومت نے ن لیگ کے لیے جو نیک نامی کمائی ہے ،وہ عام ووٹرز کے مزاج اور انداز کو تبدیل کر چکی ہے ۔عمومی طور پر عوام کو حکومتوں کی بلا رکاوٹ کرپشن ، نا اہلی اور قرضے کی معیشت پر انحصار کے چلن نے مشتعل کر رکھا ہے ۔قرضوں کی معیشت والے ملک کے لوگ حیران و پریشان ہیں کہ پاکستانی حکومتیں یہ قرض لے کر خرچ کہاں کرتی ہیں۔؟ عوام کی تعلیم ، صحت، روزگار اور سیکیورٹی کی کوئی ذمہ داری حکومت کے سرپر نہیں ہے۔یہاں مقروض ملک کے سیاسی لیڈر بے انتہا دولت مند ہو جاتے ہیں ۔پاکستان کو تو خیر اب مسلسل ترقی پذیر ملک ،بلکہ پسماندہ مملکت رہنے کی عادت ہو چکی ہے ۔ پاکستان تو پون صدی سے مسلسل ایک ترقی پذیر ملک ہے۔سچ بات کی جائے تو ایک ترقی نہ کرنے والا ملک ہے جبکہ نواز شریف چندریان 3کی رفتار سے ترقی کرنے والا پاکستانی سیاستدان ہے، اسی لیے اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو اب نواز شریف کو برطانیہ میں الیکشن لڑنا چاہیے۔اگر ایک ہندوستان نژاد شخص برطانیہ کا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو پاکستان نژاد گورے گورے رنگ کا گول مٹول شخص کیوں نہیں؟ نواز شریف کا سب کچھ تو لندن میں ہے ،گھر بار ،بال بچے ، بچوں کے بچے، کچھ مزید بچے اور بڑے۔پھر لندن میں ملنے جلنے اور جاننے پہچاننے والے بھی بہت زیادہ ہیں ۔ذرا گھر سے باہر نکلیں، لوگ ویڈیو کیمرے کھول کر ساتھ ساتھ چل پڑتے ہیں اور ساتھ ساتھ گالیوں کی پریکٹس بھی کرتے رہتے ہیں۔نواز شریف کے حوالے سے ان کے ایک مرید نے بیان دیا تھا کہ ان کی ڈکشنری میں ڈیل کا لفظ نہیں ہے۔ یہ برطانیہ پر ایک بہت بڑا لسانی الزام لگایا گیا تھا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف مقیم لندن کی ڈکشنری ناقص اور نامکمل ہو۔ہاں مگر یہ بات ماننے والی ہے کہ نواز شریف نے اردو میں چور کا منہ کالا کو تبدیل کر کے اس کے برعکس بنا دیا ہے۔ نوازشریف کی سیاست کا آغاز پاکستانی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر ضیا الحق کی گود بلکہ آغوش میں ہوا تھا۔ ضیا الحق ہی کے التفات بے کراں کے باعث جرنیلوں کی داڑھی سے کھیلنا نواز شریف کی عادت ثانیہ بن گئی ، آپ کتنے بھی لاڈلے ہوں، خدمت گزار ہوں ، ملازم پیشہ ہوں لیکن اس کے باوجود ہر وہ،جس نے آپ کو گود میں اٹھا رکھا ہو،اپنے ناک ،کان اور منہ میں انگلیاں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا، نہ ہی داڑھی نوچنا ہر کوئی برداشت کرتا ہے ۔بس یہی ماضی ہے ان لوگوں کا ، اور یہی حال ۔ مستقبل ان کا بہرحال ،بے حال ہی رہے گا۔ ہر بار دھکے دے کر نکالے جاتے ہیں ، پھر حلالہ ہوتا ہے، پھر چھپی آشنائیاں اور پھر عقد مکرر۔طرفین کی عادات و اشغال کچھ اس قسم کے ہیں کہ؛ کوئی دوسرا غیرتمند انسان اس پر پورا نہیں اتر سکتالیکن اب پاکستان کی نژاد نو یہ بات اب اچھی طرح سے سمجھ چکی ہے کہ پنکچر لگے فٹ بال سے ورلڈکپ کا فٹ بال میچ نہیں کھیلا جا سکتا، جیتنا تو دوسری بات ہے۔