کالم

وزیر خارجہ کا دورہِ بھارت اور کشمیر پر اصولی موقف

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے اگلے ہفتے بھارت جائیں گے ۔ یہ اجلاس چار اور پانچ مئی کو انڈیا کے شہر گوا میں منعقد ہو رہا ہے جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ کریں گے ۔ اس اجلاس میں پاکستان کی شرکت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور کام کے بارے میں پاکستان کے عزم اور اس کی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے جو پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں خطے کو دیتا ہے۔یہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا 12 برس کے وقفے کے بعد بھارت کا پہلا دورہ ہو گا۔ اس سے قبل سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر 2011 میں انڈیا گئی تھیں۔ بلاول بھٹو کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت انڈیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جنوری میں دی گئی تھی۔پاکستان اور انڈیا 2017 سے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے مستقل رکن ہیں۔ماہرین کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم میں ممبر ممالک کو شرکت کی دعوت دینا میزبان ملک کے فرائض میں شامل ہوتا ہے اس لیے پاکستان کو اس میں شرکت کی دعوت دینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔بھارت نے گزشتہ دنوں پروپیگنڈا کیا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی درخواست کی ہے،تاہم باخبر ذرائع کے مطابق اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت اجلاس میں شرکت کر کے پاکستان کھلے دل کے ساتھ اپنی سفارتی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے اور وزیر خارجہ کے دورے کے دوران بھی کشمیر پر اپنے موقف پر قائم رہے گا ۔پاکستان کی بین القوامی سطح پر کئی ذمہ داریاں ہیں جن کی اہمیت بھارت کے منفی رویے سے کہیں زیادہ ہے۔پاکستان ان بین القوامی ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے بھارت جیسے ملک کا بھی دورہ کرنے کو تیار ہے۔اس سے قبل 2022 میں سمرقند میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شہباز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہو گی تاہم ایسا نہیں ہوا تھا۔شنگھائی تعاون تنظیم ایک بڑا پلیٹ فارم ہے۔جسے شنگھائی میں 2001ءمیں چین قازقستان کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماو¿ں نے قائم کیا۔یہ تمام ممالک شنگھائی فائیو کے اراکین تھے،سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001 میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10جولائی 2015 کو بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔اس سے قبل پاکستان 2005 سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا۔تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015 ء”اوفا“ اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کےلئے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد اب آٹھ ہے۔پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط کر رکھے ہیں۔تنظیم نے اپنے قیام کے وقت سے نئے ممالک کو رکنیت دینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن جلد تمام رکن ممالک نے محسوس کیا کہ معاشی ترقی علاقائی تعاون اور تجارت میں اضافے اور سب سے بڑھ کر ان دونوں خطوں میں امن و استحکام اور سلامتی کو فروغ دینے کے لئے نئے ممالک کو شامل کرکے ایس سی او کے پلیٹ فارم کو وسعت دینی چاہئے۔یہ تنظیم وسعت کار میں دیگر علاقائی آرگنائزیشن سے زیادہ مختلف ہے کیونکہ اب اس میں چار ایٹمی طاقتیں پاکستان چین روس اور بھارت شامل ہیں۔دوسری طرف ایس سی او میں پاکستان اوربھارت کی شمولیت سے دونوں ملکوں کو جہاں زبردست اقتصادی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔وہیں اب دونوں ممالک تنظیم کے فیصلہ سازی کے عمل میں براہِ راست حصہ لیتے ہیں۔ ایس سی او کے پلیٹ فارم سے توانائی تجارت مواصلات اور سرمایہ کاری کےلئے جو بھی منصوبے بنیں گے پاکستان اور بھارت اب ان سے براہِ راست مستفید ہوں گے۔ پاکستان کے لئے یہ رکنیت اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے پاک چین اکنامک کاریڈور کا رابطہ نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ اس سے بھی آگے یورپ تک کے ساتھ پیدا ہو جائے گا۔ دونوں ممالک کی شمولیت سے جنوبی ایشیا کے امن اور سلامتی میں ایس سی او ممبران خصوصا روس اور چین کے سٹیک میں اضافہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے