اسلام آباد کے راستے بند کر کے خود کو مشکل میں کیوں پھنسا رہے ہو ۔ کیا احتجاج کو روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ شہر کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے ۔احتجاج کو روکنے کےلئے پولیس کنٹینروں،پٹرول، کھانے پینے کی مد میں کروڑوں روپے مانگ لیتی ہے ۔عام راستوں کو بلاک کرنے سے خون اور پٹرول جلتا ہے۔ 25اگست بروز سوموار کو صبح سے ہی اسلام آباد ٹریفک کا برا حال تھا سوائے مارگلہ روڈ کے باقی تمام راستے سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے بند تھے جس کی وجہ سے ہر جگہ ٹریفک جام تھا۔ یہاں زیادہ تر سرکاری ملازم کام کرتے ہیں یا کیسوں کی وجہ سے اس ایریا میں آنے والے مظلوم شہری اور وکلا ہیں جو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی پیشی پر آتے ہیں۔ مگر ان عدالتوں میں پہنچنا بھی کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ پرایﺅیٹ ٹیکسی کا داخلہ ویسے ہی ممنوع ہے، سرکار کی بسیں ویگنیں اس روٹ پر چلتی نہیں ۔ ایسے میں سزا سے پہلے ہی انہی سزا دی جا رہی ہوتی ہے۔ خواہش ہے کہ حکمران ہمارے ہوش کے ناخن لیں۔ پریشان عوام کو مزید پریشان نہ کریں۔جو گرفتار ہیں اگر انکے رزلٹ اچھے آئے تو اداروں کا عوام پر اعتماد بحال ہو گا میں اکثر کہتا اور لکھتا بھی ہوں کہ اگر کسی نے عوام کے بارے اور حکومت کے بارے میں جاننا ہو کہ لوگ یہاں کے کیسے ہیں تو وہ اس ملک کی ٹریفک کے نظام کو دیکھا کریں۔ راقم روز اسلام آباد ایکسپریس سے سپریم کورٹ آتا جاتا ہے ۔ ایکسپریس وے پر چار سے پانچ لائن ہیں۔ یہ ایکسپریس وے سگنل فری ہے۔ اس ایکسپریس وے کی گردن فیض آباد کے نام سے مشہور ہے۔ جب حکومت سے کسی نے اپنے مطالبات منوانا ہو تو چند درجن لوگوں کو ڈنڈے دے کر اس ایکسپریس وے پر بٹھا کر ایکسپریس وے بند کر دیا جاتا ہے۔ پھر حکومت سے بڑے بڑے مطالبات منوا لئے جاتے ہیں۔اس کے بند ہونے سے دو شہروں کے بسنے والوں کو علیحدہ کر کے عوام کی مصیبتوں اور پریشانیوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ٹریفک جام رکھی جاتی ہے ۔ تاکہ عوام کی چیخیں نکلیں۔ نارمل حالات میں جس روز بارش ہو رہی ہوتی ہے ایکسپریس وے کے پلوں کے نیچے موٹر سائیکل سوار کھڑے ہو کر ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں جس سے صرف ایک لائن چلتی ہے اور ٹریفک کا برا حال ہو جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس والے خود بھی بارش سے بچنے کےلئے ان پلو کے نیچے ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ حکومت کو چائیے کہ ان کےلئے سڑک کے کنارے عارضی طور پر چھتیں بنا دیں جب بارش ہو یہ سب اس کے نیچے کھڑے ہو جایا کریں کیونکہ یہ بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے پولیس کھڑی دیکھتے رہتی ہے۔ انہیں کچھ نہیں کہتی ۔ان پلوں کے نیچے اگر لکھ کر لگا دیا جائے کہ ایکسپریس وے پر کھڑے ہونا منع ہے۔ کھڑا ہونے والے پر ایک ہزار روپے جرمانہ ہو گا تو یہ کھڑا ہونا بند کر دیں گے۔ پولیس کے کام چوروں کی وجہ سے کسی کو نہیں معلوم کہ مجھے کس لائن میں کار، بس اور موٹر سائیکل چلانی ہے۔ بے چین روح کی طرح گاڑیوں والے زگ زیگ بناتے ہوئے ایک لائین سے دوسری میں گھستے رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے یہاں سب سیٹرنگ ڈرائیور ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ یہاں کوئی سیکھ کر نہیں آتا ۔ پیسے دے کر لائسنس لیتے ہیں۔ ان میں روڈ سنس نہیں۔یہ دو تین کو بٹھا کر رش کے اوقات میں کرتب دکھانے سے باز نہیں آتے۔ کوئی انہیں روکنے پوچھنے اور بتانے والا نہیں کہ ایسا نہ کریں۔انہیں بتاتے نہیں کہ بائیک والے کو کس لائن میں چلنا ہے۔اس وجہ سے روز حادثات پیش آتے ہیں یہ نوجوان مرتے دیکھتے ہیں قصور وار کاروں والوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہی حال پیدل چلنے والوں کا ہے جہاں جی جہاں روڈ کراس کر لیتے ہیں اور قصور وار گاڑیوں والوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ان کی لاقانونیت نے دوسروں کی زندگیاں اجیرن کر دیتی ہیں۔ ٹریفک پولیس والے کچھ نہیں کرتے ۔ ٹریفک پولیس ٹریفک کے حوالے سے ریڈیو چینل ہی شروع کردیں۔ جو لمحہ با لمحہ ٹریفک کے بارے میں خبر دے جہاں بغیر بتائے کے ٹریفک کا رخ بدل دیتے ہیں ۔ اس سے یہ ہوگا کہ لوگ ٹریفک میں پھنسے سے بچ جائیں گے۔ سرینہ ہوٹل کے تمام راستے کرکٹ کے کھلاڑیوں کی وجہ سے دن بھر بند رکھنے کا جواز نہیں جبکہ کرکٹ ٹیم جب روانہ ہونے لگے یا واپس آنے لگے تو روڈ بند کر دیں لیکن یہ نہیں کہ بازار بند دوکانیں بند کر دئے جائیں پلیز عوام کے لئے بھی کچھ آسانیاں پیدا کیا کریں۔ عوام کو صرف مہنگائی کی ہی خبر نہ دیا کریں کچھ ٹریفک ریلیف ہی دے دیا کریں ۔ لگتا ہے جیسے ہم نے خود کچھ نہیں کرنا صرف اللہ میاں نے ہی سب کچھ کرنا ہے ۔کچے کے علاقے کے ڈاکوو¿ں سے پریشان تھے کہ بلوچستان کے پکے کے مین روڈ پر چن چن کر معصوم لوگوں کو جان سے مارا گیا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے گھر میں اتفاق نہیں۔ پھر یہاں قانون نہیں سزا کا نظام نہیں۔شاہراہ دستور جہاں ملک کے تمام منسٹری کے آفس سپریم کورٹ، دو فائیو سٹار ہوٹل،پی ٹی وی ایوان صدر وزیراعظم ہاو¿س، سینٹ قومی اسمبلی وزیراعظم سیکرٹریٹ تمام اس ملک کے اہم ادارے اس ایریا میں ہیں۔ان تک پہنچنے کےلئے سرینا میریٹ ہوٹلوں کے راستے کنٹینر لگا کر بند کر رکھے تھے۔آج اس شہر کی تمام ٹریفک مارگلہ سے داخل ہو رہی تھی باقی تمام راستے بند ہونے سے ٹریفک جام لوگ ذلیل و خوار ہو رہے تھے۔ کیا کسی کے دھرنے جلوس کو آنے سے روکنے کے لئے یہی کچھ طریقہ کار باقی بچا ہے کہ کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے۔ ایسا کب تک چلے گا۔بھائی اس طریقے سے حکومت نہیں چلے گی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب آپ نے سپریم کورٹ کے وکلا کے ساتھ اس وقت آپ نے جھوٹے وعدے کئے جس سے وکلا غصہ سے لبریز ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے جس روز وکلا کی ہاو¿سنگ سوسائٹی کا ایم او یو ڈی ایچ اے کے ساتھ معاہدہ پر آپ بھی موجود تھے اس روز سپریم کورٹ کے دو سینیر وکیل سید منظور گیلانی اور راقم سے آپ نے الگ الگ وعدہ کیا تھا کہ اسی شام کو آفس جاتے ہی سپریم کورٹ کے وکلا کے یوٹل کا راستہ الیکشن آفس کا کھول دیا جائے گا مگر یہ وکلا کا راستہ کھولنے کے بجائے آپ نے تو اب سارے راستے ہی وکلا کے بند کر دئے ہیں۔ اگر آپ نے سپریم کورٹ کے اردگرد کے تمام راستے بشمول وکلا ہوٹل نہ کھولے تو وکلا بھی احتجاج کرنے سڑکوں پر ہونگے ۔ اسے مشورہ سمجھیں یا وارننگ اس کے ہر پلیز غور کریں اور عمل کریں ورنہ وکلا اسلام آباد ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ میں کسی کو کام کرنے نہیں دینگے ۔ نہ ہمارا مذاق آڑایا جائے اور نہ اپنا ۔ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ہم نے اپنے وکلا لیڈران سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بون اور حسن رضا پاشا ممبر پاکستان بار کونسل کو اس حالات سے آگاہ کر دیا ہے۔ امید ہے یہ ہمارے اور آپ کے درمیان برج کا کردار ادا کرینگے ۔ منسٹر صاحب جو آپ کو راستے بند کرنے پر مجبور کر رہے ہیں وہ آپ کے دوست نہیں دشمن ہیں۔دھرنے اور جلوسوں کے حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں مگر کبھی ایسی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی جیسے آج تھی۔ یہ شہر تو دارلخلافہ ہے۔فارنر کیا سوچتے ہونگے۔ ان کا ہی خیال کریں۔یاد رکھیں وعدے بھول جانے کو نہیں نبھانے کو کئے جاتے ہیں۔