کالم

وفاداری کا سفر

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ محفل کی ہنگامہ خیزی میں کوئی ایسی بات کانوں میں پڑتی ہے جو سیدھی دل کے نہاں خانے میں اتر جاتی ہے۔ وہ ایک جملہ، ایک مصرع، ساری عمر کا حاصل بن جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ سردار اعجاز افضل نے کہہ دیا، اور بقول میر:
ہم تو سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخمِ کاری کا علاج
یہاں تو سارے ہی نشتر رفوگر نکلے
ان کے الفاظ کیا تھے، گویا روح کو آبِ بقا مل گیا۔ فرمانے لگے: "افتخار صاحب نے جو میرے لیے کہا، شاید میں اس قابل نہیں ہوں، اور اگر ہوں تو اللہ مجھے انکے جذبات کے مطابق قائم رکھے، اور اگر نہیں ہوں تو اس محفل کی برکت سے مجھے ویسا بنا دے جیسا افتخار صاحب نے کہا ہے۔” یہ سن کر دل کا ذرہ ذرہ شکر سے معمور ہو گیا، جیسے برسوں کی ریاضت قبول ہو گئی ہو۔ یہ ناچیز، جس نے پرائمری کے مکتب میں قلم تھاما تھا، آج اپنے جذبات کو یوں الفاظ کا پیرہن پہنا سکا، یہ کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اور جب نثار صاحب سے اہلِ ذوق نے سرہانا شروع کیا، تو لگا جیسے عمر خیام کی رباعی کی سی کیفیت ہو گئی:
ہر صبح نئی، ہر شام نئی، ہر روز نیا ہے
یہ چرخِ کہنہ گرچہ بہت بار چلا ہے
کل میں بھی چلا تھا، آج تو بھی چلے گا
یہ دنیا کی بساط، کوئی دم کا میلا ہے
یہ اعترافِ ہنر نہیں، محبت کی داد تھی، جس نے میرے قلم کو مزید جلا بخشی۔ یہ میرے والد صاحب، چوہدری بردار گجر کی دعاؤں کا ثمر تھا، جن کی زبان سے ہر گجر کا ذکر محبت سے نکلتا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے: "بیٹا، گجر کا مطلب غیرت اور وفاداری ہے۔ اپنی قوم کا نام کبھی نیچے نہ ہونے دینا۔” مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ آزاد کشمیر میں میرے گجر بھائیوں نے میرے اعزاز میں شاندار تقریبات کا اہتمام کیا۔ رتہ کے وہ باوفا لوگ، رفیق عارف، ضمیر بجاڑ، مقبول رضا اور بے شمار احباب، سب نے مجھے دل و جان سے سراہا۔ وہ محفلیں، وہ محبتیں، میرے لیے قیمتی ہیرے کی طرح ہیں۔ انہی محفلوں میں، جہاں پیار اور اپنائیت کی خوشبو رچی بسی تھی، ایک کڑوا لمحہ بھی آیا۔ ایک جاٹ وزیر، جس کو شاید برادری کی عزت راس نہیں آتی تھی، طنزیہ لہجے میں بولا: "چوہدری افتخار گجر؟ گجر کوئی قوم نہیں ہوتی!”اس کا یہ کہنا تھا کہ جیسے زمین میرے قدموں تلے سے سرک گئی۔ رگوں میں خون دوڑ گیا، دماغ میں آگ سی لگ گئی۔ غالب کا یہ شعر یاد آیا:
جلتا ہے بدن، دل بھی جلا، آنکھ بھی روئی
اس آگ کو ہم عشقِ پریشاں نہیں کہتے
اس وقت مجھے عشقِ قوم نے پریشان کر دیا تھا۔ غصے کی شدت سے منہ سے وہ سب کچھ نکل گیا جو ایک گلی کا اوباش لڑکا کہہ سکتا ہے۔ لفظوں کے تیر چلے، اور اگر میرے ایک عزیز دوست درمیان میں نہ آتے تو شاید بات ہاتھا پائی تک جا پہنچتی۔ یہ لمحہ میرے لیے ایک ذاتی جنگ کا آغاز تھا، ایک ایسی جنگ جہاں میری قوم کی عزت پر حرف آیا تھا۔ میرے والد صاحب ہمیشہ کہتے تھے، "گجر کا بیٹا، اپنی عزت اور قوم کی عزت پر کبھی سودا نہیں کرتا۔” اور میں نے اسی بات پر عمل کیا ۔ میرے یہ جذبات محض وقتی طیش یا عارضی ردِ عمل نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔ یہ میرے مزاج کا حصہ ہے، اصولوں کی پاسداری، غیرت کی تڑپ اور عزتِ نفس کا وہ مظاہرہ ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر میرے ساتھ رہا ہے۔ بقول میر:
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جی کا جانا ٹھہر جانا ہے عشق
میرے لیے یہ جذبات عشق سے کم نہیں۔ مجھے وہ واقعہ آج بھی یاد ہے جب میں جدہ میں تھا۔ ایک صومالی نوجوان نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی نازیبا گفتگو کی۔ اسکی بات سنتے ہی میرا خون کھول اٹھا، اور بغیر کسی توقف کے میں نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔ اس وقت نہ جدہ کی تپتی گرمی یاد رہی، نہ اجنبیت کا احساس۔پٹرول پمپ کے پاس ہم دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ اگر ایک راہ گیر عین موقع پر نہ آتا تو شاید صورتحال مزید سنگین ہو جاتی۔یہ واقعہ میری اس فطرت کا عکاس ہے کہ جہاں عزت اور اصولوں کی بات آتی ہے، میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ میرے والد صاحب نے ہمیشہ غیرت سکھائی تھی، وہ کہتے تھے: "بیٹا، گجر کی غیرت اس کی زندگی ہے۔”زندگی کیسے گزری؟” یہ سوال آج بھی میرے دل میں گونجتا ہے۔ تو کبھی لگتا ہے جیسے ہر پل امتحان میں گزرا۔ یہ احساسات میری زندگی کے مختلف ادوار، خوشیوں اور غموں، کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہیں۔ لیکن اصل فیصلہ تو اس دن ہو گا جب میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں ملے گا۔ یہ وہ دن ہو گا جب میری تمام محنت، میری وفاداری، میری غیرت، اور میرے اعمال کا حساب ہوگا۔ بقول میر:
ہر قدم بکھر گئے ہیں پردہ پردہ رازِ ہستی کے
مگر کب تک چھپیں گے، ایک دن تو کھل ہی جائیں گے
میری پوری زندگی اسی ایک دعا کے گرد گھومتی رہی ہے: "اے اللہ! میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دے۔” یہ دعا محض الفاظ نہیں، بلکہ میری آرزو، میرا ایمان اور میری امید ہے۔ یہ امید کہ میرا اللہ میری خطاؤں سے درگزر کرے گا اور میری نیکیاں میرے حق میں گواہی دیں گی۔ میری زندگی کا سب سے فخر کا لمحہ وہ تھا جب 1974 کی تحریک ختم نبوت کے دوران مجھے گرفتار کیا گیا۔ میں نے یہ گرفتاری اپنی قوم، اپنے ایمان، اور اپنے رسول ۖ کی محبت میں دی تھی۔ یہ لمحہ میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تھا، اس وقت نہ اپنی ذات کی پروا تھی، نہ کسی خوف کا احساس۔ صرف ایک ہی جذبہ تھا، عشقِ رسول ۖ میں قربانی دینے کا۔ غالب کا یہ شعر اس کیفیت کو بیان کرتا ہے:
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
اور میر کی زبانی:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اگر اس سب کا صلہ کچھ بھی نہیں، تب بھی مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اپنے ایمان کا حق ادا کیا۔ مجھے یقین ہے کہ شاید میرے اعمال کا یہ باب، جس میں میں نے اپنے آقا کی ناموس پر قربانی دی، روزِ قیامت میرے حق میں گواہی دے دے گا۔ یہی گواہی، یہی شفاعت، میرے لیے دنیا و آخرت کی سب سے بڑی دولت ہے۔ یہی میرے والد صاحب کی بھی آرزو تھی کہ ایمان پر قائم رہنا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے