اداریہ کالم

وفاقی حکومت کامعتدل بجٹ

idaria

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کا میزانیہ پیش کردیاہے جس کے مطابق تنخواہ دار طبقے اور پنشن حاصل کرنے والے طبقات کو فائدہ پہنچایاگیاہے جبکہ عام طبقات کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملا، وفاقی حکومت نے بجٹ کومعتدل قرار دیا ہے مگر تجارتی حلقوں نے اس بجٹ کو نامناسب قرار دیتے ہوئے تقریباً مسترد کیاہے ۔ حکومت کو چاہیے تھاکہ کم آمدنی والے افراد کے لئے بجٹ میں ریلیف دینے کااعلان کرتی جونہیں کیاگیا تاہم حکومت نے پہلی بار صحافتی حلقوں کوہیلتھ انشورنس دینے کااعلان کیاہے جو خوش آئند ہے کیونکہ ماضی میں آنے والی حکومتیں صحافتی حلقوں کو نظراندازکرتی چلی آئیں ۔سابقہ دور میں جو ہیلتھ کارڈ جاری کئے گئے تھے اس میں بھی صحافتی حلقوں کو نظرانداز کیاگیاتھا مگر اس بجٹ میں ملکی تاریخ میں پہلی بارانہیں ریلیف مہیاکرنے کی کوشش کی گئی ہے گوکہ یہ رقم کم ہے تاہم امید کی جاتی ہے آئندہ مالی سال میں اس رقم میں مزید اضافہ کیاجائے گاکیونکہ صحافتی حلقوں کو نہ تو سرکاری علاج ومعالجے کی سہولت میسرتھی اورنہ ہی گروپ انشورنس کی تجویز تھی اس تجویز کوصحافتی حلقوں میں بے حدپذیرائی حاصل ہوئی ہے جس کاکریڈٹ وفاقی وزیراطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب اوروزیراعظم پاکستان میاں شہازشریف کو جاتاہے۔ گزشتہ روزوفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2023-24 کا 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا ہے جس میں 69 کھرب 24 ارب روپے کا خسارہ ہے جبکہ بجٹ کا تقریباً نصف حصہ 73 کھرب 3 ارب روپے قرض اور سود کی ادائیگیوں کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ تاہم 11 کھرب کا تاریخی ترقیاتی پروگرام رکھا گیا ہے ، ایف بی آر کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 92 کھرب ہے ۔ بجٹ میں 223 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کردئیے ہیں اور محصولات کی وصولی کا بڑا حصہ انکم ٹیکس کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں ایڈہاک ریلیف دیاگیا ہے ، گریڈ ایک سے 16تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد ، گریڈ 17سے 22تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30فیصد اضافہ کر دیاگیا ہے اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں کم سے کم اجرت 25ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 32ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہے ۔ بجٹ میں برانڈڈ کپڑے مہنگے اور سولر پینلزسستے ہوگئے ،نئے بجٹ کے تحت پرانے بلب اور روایتی پنکھے مہنگے ہوں گے، روایتی پنکھوں پر دو ہزار روپے فی کس ایکسائز ڈیوٹی اورپرانے بلب پر بیس فیصد ریگولیٹر ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے، صنعت و زراعت کیلئے مراعات تجویز کی گئیں ، امیروں پر سپر ٹیکس برقرار ہے ، نان فائلرز کیلئے بینک چارجز اور خدمات پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ، چمڑے کی مصنوعات اور کپڑوں کے ریٹیل سیکٹر پر 15فیصد GST، پرانی غیرملکی گاڑیوں پر ٹیکس کی حد ختم، EOBIپنشن 10ہزار، ٹیٹراپیک دودھ، دہی، مکھن، پنیر، مچھلی، مرغی کا گوشت اور انڈوں کے پیکٹ پر18 فیصد، کافی ہاوسز، فوڈ آوٹ لیٹس پر 5فیصد ٹیکس لگے گا،سمندرپار پاکستانیوں کیلئے پراپرٹی خریدنے پر ٹیکس میں کمی، پرانے کپڑوں پر ڈیوٹی ختم، ٹائلز ، کموڈ ، شاور اور نل سستے ہوگئے ۔آئندہ مالی سال 2023-24کےلئے آمدن اوراخراجات کا جو تخمینہ لگایاگیاہے اس کے مطابق آمد ن یعنی وسائل کی مد میں ایف بی آرکے ٹیکس ریونیو کا ہدف 9200ارب روپے ، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 2963ارب روپے رکھاگیا ہے، اس طرح مجموعی ریونیو کی وصولیاں 12163روپے ہونگی اس میں صوبوں کا شیئر 5276ارب روپے ہوگاجس کے بعد نیٹ ریونیو وصولیاں 6887ارب روپے رہ باقی رہ جائیں گی ، آمدن کی دوسری مد میںنان بنکوں سے 1906ارب روپے قرض لیاجائیگا، بیرونی قرضے کی مد میں 2527ارب روپے وصول ہونگے ، اندرونی وصولیوں میں بنکوں سے قرضے جن میں ٹی بلز ، پی آئی بی اور سکو ک بانڈسے 3124ارب روپےوصول ہونگے ، اداروں کی نجکاری کی مد میں 15 ارب روپے جمع ہونگے ، اس طرح آئندہ مالی سال مجموعی آمدن 14460ارب روپے ہوگی اور اخراجات میں کرنٹ اخراجات 13320ارب روپے اور ترقیاتی اخراجات اور قرضوں کی فراہمی پر 1140ارب روپے خرچ ہونگے ، کرنٹ اکاﺅنٹ اخراجات میں سود کی ادائیگیوں کی مد میں 7303ارب روپے ، پنشن پر 761ارب روپے ، دفاع پر 1804ارب روپے کے اخراجات ہونگے ، صوبوں کو منتقلی اوردیگر گرانٹس کی کی مد میں 1074ارب روپے ، سبسڈیز پر 1074ارب روپے خرچ ہونگے ، جاری سول حکومت کے اخراجات 714ارب روپے ہونگے ، ہنگامی حالات کےلئے 200ارب روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے، 1140ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کےمیں سے 950ارب روپے پی ایس ڈی پی اور 190ارب روپے قرضوں کی فراہمی پر خرچ ہونگے ۔ بجٹ تقریر کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، معاشی مشکلات اور مہنگائی کی مکمل ذمہ دار PTIحکومت ہے۔اپنی بجٹ تقریرمیں مزید کہا کہ کوشش یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں۔ مالی سال 2016-17 تک پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6.1فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی۔ پاکستان خوشحالی اور معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا اور دنیا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی معترف تھی۔ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے نئے منصوبے مکمل کئے گئے۔ ان حالات میں آنا فانا منتخب جمہوری حکومت کیخلاف سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی۔ اس سلیکٹڈ حکومت کی معاشی ناکامیوں پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022میں گر کر 47ویں نمبر پر آ گیا۔آج پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ آج کی خراب معاشی صورتحال کی اصل ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت ہے۔ موجودہ حالات گزشتہ حکومت کی معاشی بدانتظامی، بدعنوانی، عناد پسندی اور اقربا پروری کا شاخسانہ ہیں ۔ اتحادی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پا رہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان سازشی عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔موجودہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے الحمداللہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ا یف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر میں کہا کہ اس امر کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے غیور اور روشن خیال عوام اس حقیقت سے پوری طرح روشناس ہو چکے ہیں کہ ان کا اصل دوست اور خیر خواہکون ہے اور ملک و قوم کا دشمن اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے۔ دوسری جانب بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل وفاقی کابینہ کااجلاس ہوا جس میںوزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کر لیا ہے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے زبانی وعدہ کرلیا اب کوئی رکاوٹ نہیں آئی ایم ایف کے ساتھ رواں ماہ معاہدہ ہونے کی توقع ہے پوری دنیا میں اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے عام آدمی پرمہنگائی کا بے پناہ بوجھ پڑا ہے سابق حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا سیاسی انتشار نے ملک کے اندر سرمایہ کاری رک گئی، صنعتیں بھی متاثر ہوئیں، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عام آدمی کو ریلیف دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اقتصادی ترقی شدید متاثر ہوئی ہے وسائل پر بہت بوجھ ہے معیشت کی ترقی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو معیشت تباہ ہوجائے گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے