اداریہ کالم

وقت پر انتخابا ت کرانے کی یقین دہانی،خوش آئند

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے دورہ ¿ امریکہ کے دروان میل ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ روز انہوں نے اوورسیز پاکستانی تاجروں سے ملاقات کی۔پاکستانی تاجروں کےساتھ ہونے والی ملاقات میں آرمی چیف نے جہاں بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی وہیں یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ ملک میں عام انتخابات 8فروری 2024کو ہوں گے۔ پاکستانی نژاد تاجررہنماو¿ں نے اس بارے میں بتایا کہ کاروباری شخصیات سے ملاقات میں آرمی چیف سے الیکشن میں تاخیرکے حوالے سے خدشات بارے پوچھا تو انہوں نے کہا انتخابات سینیٹ کے الیکشن سے آگے نہیں جائیں گے اور پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات مارچ 2024میں ہونے ہیں ۔ ادھرنگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے اور اس کو الیکشن سے روکنا غیرقانونی ہو گا، اگر کہیں کسی کو انتخابی عمل سے روکا گیا ہے تواسکی تحقیقات کریں گے۔ ایک انٹرویو میںانوار الحق کاکڑ نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سوال پر کہا کہ الیکشن کے دوران سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کےلئے بیانیہ بناتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کہیں پر انتظامی شکایات آرہی ہیں تو الیکشن کمیشن اس کو دیکھے، الیکشن کے لیے جہاں پر ہماری ذمہ داریاں ہوں گی ہم اسے پورا کریں گے اور ان کو قانون کے مطابق دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب الیکشن کے دن آئیں گے تو پی ٹی آئی کے امیدوار بھی میدان میں دکھیں گے اور ووٹرز انہیں سپورٹ بھی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت تمام جماعتیں انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں ، میں بھی ایک ووٹر کے طور پر اپنا حق استعمال کروں گا اور اس پارٹی کو ووٹ دوں گا جس کے پاس معاشی بحالی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہم نے میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی فوٹو دکھانے پر پابندی نہیں لگائی، انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، الزامات صرف ہم پر نہیں ماضی کی تمام حکومتوں پر بھی لگتے رہے ہیں۔نگران وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ شفاف انتخابات کیلئے حکومت کے الیکشن کمیشن سے مربوط روابط ہیں، شفاف الیکشن کیلئے ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔یہ ایک انتہائی خوش آئند امر ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول اور کاغذات نامزدگیوں کی وصولی کے بعد 8 فروری کے عام انتخابات کے بارے میں بے یقینی کی آہستہ اہستہ کم ہوتی جا رہی ہے اور ملک بھر میں انتخابی سرگرمیوں کاجمہوری عمل تیز ہو گیا ہے، آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد بھی انتخابات میں حصہ لے گی۔ ریٹرننگ افسرامیدواروں سے کاغذات نامزدگی وصول کر رہے ہیں۔اس ضمن شکایت بھی سامنے آرہی ہیں کہ انہیں انتظامیہ کی طرف سے حراساں کیا جا رہا ہے تاہم امید ہے کہ متعلقہ اداروں ان شکایات کا نوٹس لے گے۔ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے رابطے تیز ہیں ۔ پارٹیاں اپنے اپنے انتخابی منشور کو حتمی شکل دے رہی ہیں جن میں ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے بلندبانگ دعوو¿ں اورپرکشش مراعات کے وعدوں کی پیشکش شامل ہیں۔ امیدواروں نے اپنے دفاتر قائم کرنا شروع کر دئیے ہیں جس کے بعد باقاعدہ انتخابی مہم شروع کریں گے۔ ووٹر لسٹیں تیار ہیں مگر امیدواروں کو ان کے حصول میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جن کا ریٹرننگ افسروں کو تدارک کرنا چاہئے، عام انتخابات ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے اور آنے والی حکومت کو اس حوالے سے مشکل مگر دور اندیشانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ عوام کو بھی اپنے ووٹ کے ذریعے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا ہو گا جو ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کے روشن مستقبل کیلئے اپنی صلاحیتیں استعمال کریں۔ان سطور کے ذریعے پارٹیوں سے بھی التماس ہے کہ وہ انتخابی مہم میںایک دوسرے کی کردار کشی اور ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملکی و قومی مسائل پر مرکوز رکھیں ،سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کو صبر و تحمل اور برداشت کا درس دیں اور تلخیاں بڑھانے اور لڑائی جھگڑے سے دور رکھیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کو لیول لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ ہونے کی شکایت ہے۔نگران وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو ان کی شکایات کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنا چاہئے تاکہ انتخابات کو شفاف بنایا جا سکے۔ ہر سیاسی پارٹی کو انتخابی مہم میں یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔پولنگ کے روز ووٹرز کو گھروں سے نکالنا بھی سیاسی پارٹیوں کیلئے لازم ہے۔کوشش کی جانی چاہئے کہ انتخابات کومنصفانہ اور شفاف رکھنے کے لئے تمام اقدامات کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے۔
مودی سرکارپروپیگنڈے سے بازرہے
بھارت میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر بھارتی قیادت کی جانب سے پاکستان کی مخالفت، الزامات اور فالس فلیگ آپریشنز جیسے حربے اب ایک دیرینہ روایت بنتی جارہی ہے جس کے ذریعے بھارت کی برسراقتدار پارٹی اپنے ووٹرز کیلئے ہمدردیاں حاصل کرتی ہے جس کی تازہ ترین مثال بھی سامنے آئی ہے۔ ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے پاکستان پر الزامات کی دیرینہ روایت جاری ہے۔ بھارتی فوجی قافلے پر حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا ۔ مودی سرکار اور بھارتی میڈیا نے ضلع پونچھ کے علاقے سرن کوٹ میں بھارتی فوجی قافلے پر حریت پسندوں کے حملے کا الزام بھی فورا پاکستان پر لگا یا۔فالس فلیگ آپریشن میں کوئی بھی ملک دہشت گردی کے کسی واقعے کا الزام لگا کر اپنے دفاع میں دوسرے ملک کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز مہیا کرتا ہے۔ بھارت جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کےلئے خود دہشت گردی کا کوئی واقعہ کرا کر پاکستان پر الزام تھوپنا چاہتا ہے تاکہ اسے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز مل سکے۔ مودی اقدامات کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھی ہے۔ لہٰذا بھارت اپنی خراب معاشی صورتِ حال سے توجہ ہٹانے کےلئے پاکستان کے خلاف فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے۔ نئی دہلی کا پاکستان کے خلاف کسی کارروائی کا فی الوقت کوئی امکان نہیں ہے۔ پاکستان کی پالیسی اس وقت دفاعی نوعیت کی ہے۔ اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کی تو بھی پاکستان دفاع میں جوابی کارروائی کرے گا۔ جیسا کے پاکستان نے پلوامہ حملے کے بعد لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی علاقے میں فضائی کارروائی کی تھی۔
اسلام آباد کے شہریوں کیلئے بائیسائیکل کامنصوبہ
اسلام آ باد کے شہری سائیکل چلانے کیلئے تیار ہو جائیں کیونکہ سی ڈی اے کی محکمانہ ترقیاتی کمیٹی نے اسلام آ باد کے تمام سیکٹرز میں بائیسکل ٹریک بنا نے کے بائیسکل لین پراجیکٹ کےپی سی ون کی منظوری دیدی تاکہ وفا قی دارالحکومت میں شہری کار کی بجائےسائیکل چلانے کو تر جیح دیں جو ماحول دوست ہے۔ ا س میں عام سائیکل اور ای سائیکل دو نوں شامل ہیں۔ یہ ایکوفر ینڈ لی متبادل ٹرانسپورٹیشن سسٹم وضع کیا گیا ۔ا س سے شہر کاگرین کیر یکٹر محفوظ بنا نے اور ماحولیاتی آ لودگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔پراجیکٹ کی کل لاگت دو ارب84کروڑ روپے ہےاور اسے تین فیز میں دو سال میں مکمل کیا جا ئے گا۔یہ منظوری گزشتہ روزچیئر مین سی ڈی اے کیپٹن (ر) انوار الحق کی زیر صدارت ہونےوالے اجلاس میں دی گئی۔یقیناسائیکل کی اہمیت دوبارہ سے لوٹ رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کےلئے سائیکل بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک تو الیکٹرک گاڑیوں کے عام استعمال میں ابھی وقت لگے گا دوسرا اس مہنگائی کے دور میں لوگوں کے پاس مشکل سے اناج خریدنے اور علاج کروانے کے لیے پیسے ہیں وہ کہاں سے مہنگی الیکٹرک گاڑیاں خریدیں گے۔ ٹریفک کے بے ہنگم شور، گاڑیوں کے باعث فضا میں زہریلے دھوئیں اور روز روز پیٹرول کی بڑھتی قیمتوسے بچنے کےلئے سائیکل کا استعمال عام کرنا ہوگا۔دیکھا جائے تو سائیکل چلانے میں جہاں لطف اندوز ہوا جاتا ہے وہی ساتھ ساتھ ورزش بھی ہوتی ہے اور ماحول پر بھی اس کا مثبت اثر پڑتا ہے۔ جس طرح ہم گاڑیوں سے خارج ہونےوالی زہریلی گیسوں اور فضائی آلودگی کے بھنور میں پھنس گئے ہیں، اس کےلئے ضروری ہے کہ سائیکل کو میدان میں لایاجاناچاہیے اور ماحول دوست سواری کو فروغ دیا جائے۔ انسان اپنے ماحول کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم سب کو بھی ماحول دوست شہری بننے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے