کالم

’ ون نیشن الیکشن ‘ یا ’ فالس فلیگ آپریشن ‘ ؟

سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں آئندہ سال لوک سبھا چناﺅ ہونے والے ہیں جبکہ اس سے قبل بھارتی ریاستوں میزورام ، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ کے صوبائی انتخابات بھی سر پر آن پہنچے ہیں۔ بھارتی داخلی سیاست کے خدوخال کا جائزہ لینے سے یہ امر تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاﺅں انتخابی میدان میں اکھڑتے جا رہے ہیں۔ 2014 اور اس کے بعد 2019 میں جیسے نریندر مودی نے دھوم دھام کے ساتھ اقتدار پر قبضہ جمایا، 2024 میں یہ منظرنامہ دہرانا بی جے پی کیلئے یقینا مشکل ہو چکا ہے۔ آمدہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے لیے پر امید بی جے پی واضح بے چینی اور اضطراب کا شکار نظر آ رہی ہے۔مودی سرکار کو بخوبی یہ ادراک ہے کہ انتخابی دنگل میں وہ کمزور پڑ رہی ہے، لہذا اب بھارتی وزیراعظم نے ” ون نیشن ون الیکشن “ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ سابق بھارتی صدر رام ناتھ کووِند کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جبکہ لوک سبھا اور راجیے سبھا کا مشترکہ اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے۔ بی جے پی خواہاں ہے کہ بھارت میں چونکہ ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی ریاست میں انتخابی عمل چل رہا ہوتا ہے، اس لئے ایسی قانون سازی کی جائے جس کے تحت بھارتی وفاق اور ریاستوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں۔ فی الحال تو بی جے پی کی یہ حرکت دیوانے کا خواب ہی نظر آ رہی ہے کیونکہ بھارتی اپوزیشن کی جانب سے اس کی سخت مخالفت سامنے آ رہی ہے۔ ہندوستان کے اعتدال پسند حلقے تواتر سے یہ تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ مودی سرکار 2024 کے انتخابات میں سیاسی کامیابی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ خدشہ ہے کہ بھارتی جنتا پارٹی سیاسی فوائد کے حصول کیلئے پلوامہ حملے یا نام نہاد سرجیکل سٹرائیک جیسا ایک اور جعلی آپریشن کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے کیونکہ بھارتی داخلی سیاست میں آئندہ برس لوک سبھا چناﺅ کے باعث ہلچل مچی ہوئی ہے۔ منی پور میں 3 مئی سے عیسائی کش فسادات جاری ہیں۔ ہریانہ میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ ابھی تک نہیں رک سکابھارتی ۔ معاشرے میں بڑھتی ہندو انتہا پسندی اور اپوزیشن جماعتوں کے یکجا ہونے سے ہندوستان کا سماجی ڈھانچہ تیزی سے ٹوٹ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار بھارتی عوام کا دھیان بٹانے کیلئے پلوامہ ٹو جیسے ایک اور جعلی آپریشن کی تیاری میں ہے۔ قابل ذکر امر ہے کہ بھارت کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے بھی تشویش ظاہر کی ہے مودی حکومت 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل پلوامہ حملے یا نام نہاد سرجیکل سٹرائیک جیسا ایک اور جعلی آپریشن کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے انھوں نے بھارتی عوام کو خبردارکیا کہ مودی حکومت ایک اور منصوبہ تیار کررہی ہے تاکہ بھارتی ووٹروں کو 2024کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی طرف راغب کیا جائے ۔ انھوں نے اسکی تفصیل بتاتے کہا کہ لوک سبھا چناﺅ سے پہلے مودی سرکار اپنے ہی کسی ساتھی کو قتل کرا سکتی ہے، یا ایودھیا میں رام مندر میں دھماکہ کر اکے اس کا سارا الزام پاکستان اور مسلمانوں پر ڈال سکتی ہے، تا کہ ہندوﺅں میں پاکستان اور اسلام کیخلاف مزید زہر بھر دیا جائے اور انتخابی فتح کا راستہ ہموار ہو سکے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ پلوامہ کا ڈرامہ مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے کیونکہ خود بھارت کے اندر سے ہی ہندوستانی انتہا پسند سرکار کیخلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ پلوامہ، انتخابات جیتنے کیلئے نریندر مودی، امت شاہ اور اجیت ڈووال کی ایک چال تھی۔ پلوامہ حملے کے وقت مقبوضہ جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک ، معروف صحافی کرن تھاپڑ کو انٹرویو دیتے کہہ چکے ہیں کہ پلوامہ واقعے سے قبل سی آر پی ایف اہلکاروں کو لے جانے کیلئے بھارتی وزارتِ داخلہ سے ہیلی کاپٹروں کی درخواست کی گئی جسے رد کر دیا گیا۔ بعد ازاں پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزام تراشی کی گئی اور انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کیا گیا، جب انھوں ( ستیہ پال ملک ) نے مودی کو اس حوالے سے آگاہ کیا تو انھیں اس سب پر خاموش رہنے کا کہا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مئی 2023میں بھارتی ریاست کرناٹک میں ذلت آمیز انتخابی شکست نے بی جے پی کو یہ احساس دلایا ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو ناکوں چنے چبانے پڑ سکتے ہیں۔ ہندو راشٹر کے قیام کی داعی آر ایس ایس نے ہندو ووٹ بینک کو سمیٹنے کیلئے ہندو انتہا پسندی کو ہر ممکن ڈھنگ سے پروان تو چڑھایا، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ زعفرانی دہشتگردی کی خالق نام نہاد سیکولر ریاست مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں عملاً کھلونا بن چکی ہے۔ اس کی ایک مثال تب سامنے آئی جب چند روز قبل 27 اگست کو آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد نے ہریانہ میں اپنی ہینڈلر بی جے پی کو ہی کورا جواب دے ڈالا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ ہریانہ میں وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے 31 جولائی کو یاترا نکالی تھی جس کے بعد ریاست میں بدترین مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں بیسیوں مسلمان شہید ہوئے جبکہ 3 مساجد کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف ان فسادات میں ہریانہ کی بی جے پی سرکار نے ہندو انتہا پسندوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اس سب کے بعد وی ایچ پی نے اعلان کیا کہ وہ 28 اگست کو ضلع نوح میں دوبارہ برج منڈل یاترا کا انعقاد کرے گی۔ اس اعلان کے جواب میں ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لعل کھٹر نے کہا تھا کہ وی ایچ پی کو یہ یاترا نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس پر ردعمل دیتے وی ایچ پی کے مرکزی ترجمان ونود بنسل نے کہہ دیا کہ یاترا نکالنے کیلئے حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ہندو دیش ہے، یاترا ٹھیک گیارہ بجے شروع ہو گی، اس کیلئے کسی سے اجازت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یعنی یہ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ وہ اپنے ہینڈلرز کے احکامات ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ اور ہوا بھی یہی، وشو ہندو پریشد نے نہ صرف یہ یاترا نکالی بلکہ ہمیشہ کی طرح وہاں بسنے والے مسلمانوں پر ایک بار پھر زمین تنگ کر دی گئی۔ حسب سابق و حسب روایت سیکولر ریاست کے باسی یہ مسلمان تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔ یہ اس امر کا تذکرہ بھی ہو جائے کہ مودی سرکار نے گذشتہ دنوں ایک خلائی مشن چاند پر روانہ کیا تھا جو کامیابی کیساتھ جنوبی قطب پر اترا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کامیابی کو بھارت پروقار طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرتا۔ الٹا رام راجیے کے خبط میں مبتلا آر ایس ایس کی ایک اور ذیلی تنظیم نے چاند کو ہی ہندو راشٹر قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔ آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے سربراہ سوامی چکرپانی مہاراج نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کا خلائی مشن چاند پر پہنچنے کے بعد اب یہ لازم ہے کہ چاند کو بھی ہندو مملکت قرار دیا جائے۔ دن میں خواب دیکھنے کے عادی سرابوں کے بھنور میں چکراتے چکرپانی مہاراج نے فقط اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ذہنی بدحواسی کے شکار چانکیہ کے اس پیروکار اور ہندوتوا کے پرچارک نے تو حد ہی ختم کر دی جب انھوں نے بھارتی پارلیمان سے اس ضمن میں فی الفور قرار داد پاس کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کر ڈالا۔۔ آل انڈیا مہا سبھا کی گدی پر براجمان سوامی چکرپانی مہاراج کا یہ مطالبہ کہ جس جگہ خلائی گاڑی اتری، اسے ہندو راشٹر کا دارالحکومت قرار دے دیا جائے۔ انکے ذہنی خطب میں مبتلا ہونے کی دلیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس سے قبل سیکولر ریاست کے مذہبی جنونی پردھان منتری نریندر مودی چاند کی جس جگہ پر بھارتی خلائی مشن اترا، اسے ”شیو شکتی پوائنٹ“ کا نام دے چکے ہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے منی پور اور امرتسر سے ناگالینڈ تک مذہبی اکائیوں کو زعفرانی دہشتگردی کی سنگینوں میں پرونے والے خونی انتہا پسند نے چاند یاترا کو بھی ہندو انتہا پسند ایجنڈے کی تکمیل کا ایک زینہ بنا دیا ہے۔بہرحال یہ امر تو واضح ہے کہ مودی سرکار لوک سبھا چناﺅ سے پہلے پاکستان کیخلاف کسی بڑی اشتعال انگیزی کی مرتکب ہونے جا رہی ہے۔ فالس فلیگ آپریشن یا اپنے ہاں کوئی ددہشتگردانہ واقعہ کرا کے بھارتی حکومت اس کا الزام پاکستان پر ڈال کر انتخابی فتح کے خواب دیکھ رہی ہے اور ماضی میں اسے اس طرز عمل کے خاطر خواہ نتائج بھی ملتے رہے ہیں۔ بھارتی فسطائی ریاست کے اپنے پلے تو کچھ نہیں اس لیے ہر بار کشمیر اور پاکستان کارڈ کھیل کر وہ واٹرز کو ایک بار پھر بے وقوف بنائیں گے لیکن اس بار دیکھنا یہ ہے کہ ہمیشہ کیطرح ہندوستانی جنتا کیا پھر مودی کے دھوکے میں آ جائے گی؟ یا گزرے دس سالوں کا حساب وہ ووٹ کی طاقت سے لیں گے؟ کیا سب جانتے بوجھتے بھی عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ آخر بھارت کی دہشتگردی اور دہرے معیاروں کا حساب کب کیا جائے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے