پاکستان، جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ضرور ہے، لیکن اس کے خواب بہت بڑے اور مقاصد عظیم ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں انسان اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر ادھر ادھر منتقل ہوئے۔ مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دے کر پاکستان کا رخ کیا، جبکہ ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں بھارت چلے گئے۔ اس ہجرت کے نتیجے میں ہمارے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بے شمار مندر اور گردوارے خالی ہو گئے، جو آج بھی راولپنڈی، لاہور، ملتان، اور سندھ کے کئی شہروں میں ویران کھڑے ہیں۔راولپنڈی کی پرانی گلیوں میں گھومیں تو کئی ایسی جگہیں نظر آئیں گی جہاں کبھی مندروں کی گھنٹیاں گونجتی تھیں، مگر اب وہاں مکمل خاموشی ہے۔ لاہور کے اندرون شہر میں بھی ایسے گردوارے موجود ہیں جن پر وقت کی گرد جم چکی ہے۔ سندھ میں تھرپارکر اور عمرکوٹ کے علاقے آج بھی ہندو برادری سے آباد ہیں، اور وہاں کے مندر پوری آب و تاب سے قائم ہیں۔ لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بیشتر مندروں میں اب نہ کوئی پجاری آتا ہے، نہ دیے جلتے ہیں اور نہ ہی پرساد تقسیم کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان بے جان عمارتوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کیا ہر خالی مندر اور گردوارے کو اسی طرح عبادت گاہ کے طور پر محفوظ رکھا جائے، چاہے وہاں عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو؟ یا پھر ہمیں حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کوئی عملی راستہ نکالنا ہوگا؟سب سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جہاں ہندو اور سکھ کمیونٹی آج بھی آباد ہے، وہاں کے مندر اور گردوارے محفوظ اور آباد رہیں۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے، ہمارا دینی اور اخلاقی فرض ہے، اور پاکستان کے آئین میں بھی یہ بات واضح طور پر درج ہے۔ اسلام اقلیتوں کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ رسول اکرم ۖ نے اپنے دور میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی جو مثال قائم کی، وہ قیامت تک ہمارے لیے ایک اصول ہے۔ اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔لیکن جہاں کوئی برادری باقی نہیں رہی، وہاں ہر گلی اور محلے میں خالی مندر کو یونہی قائم رکھنا دانشمندی نہیں۔ یہ قوم کے محدود وسائل پر ایک اضافی بوجھ ہے۔ پاکستان کو اپنی زمین اور وسائل ایسے منصوبوں پر لگانے چاہئیں جو زندہ اور فعال ہوں، نہ کہ ٹوٹے پھوٹے کھنڈرات پر۔ ایک چھوٹے ملک کیلئے ہر اینٹ اور ہر گز زمین قیمتی ہے۔ جب عوام اسپتالوں میں دوائیوں کے لیے ترستے ہیں اور بچے اسکولوں کے بغیر ہیں، تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم ویران عمارتوں کو یونہی محفوظ رکھنے پر اصرار کریں؟یہاں ایک درمیانی راستہ نکل سکتا ہے۔ غیرآباد مندروں اور گردواروں کو ہمیں ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ چند بڑے اور اہم مقامات کو بطور تاریخی ورثہ محفوظ رکھنا چاہیے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں یہ جان سکیں کہ اس خطے میں ہندو اور سکھ کمیونٹی موجود تھی۔ یہ ورثہ ہماری تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے اور تاریخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن باقی عمارتوں کو بوجھ نہ بننے دیا جائے۔ ان پر مارکیٹیں، تعلیمی ادارے، اسپتال اور دیگر منافع بخش ادارے قائم کیے جائیں۔اہم بات یہ ہے کہ ان منصوبوں سے حاصل ہونے والی آمدن براہِ راست پاکستان میں موجود ہندو اور سکھ برادری کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔ ان کے بچوں کی تعلیم، صحت، روزگار اور سماجی بہبود پر۔ اس طرح اقلیتوں کو یہ اعتماد ملے گا کہ ان کے ماضی کے ورثے سے حاصل ہونے والا نفع آج انہی کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ یوں یہ عمارتیں کھنڈرات نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ بنیں گی۔یہاں یہ فرق سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ بھارت میں بابری مسجد کے انہدام نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ صدیوں پرانی مسجد کو شہید کر کے وہاں رام مندر بنایا گیا۔ یہ مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی وجود کو مٹانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی۔ آج بھی بھارت میں گیانواپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ پر نئے تنازعات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں اور ان کے نشانات مٹائے جا رہے ہیں۔ یہ سراسر ظلم، ناجائز اور ناانصافی ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی مندر یا گردوارہ از سر نو تعمیر کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد نشانات مٹانا نہیں بلکہ تعمیر نو ہے۔ یہاں تجویز یہ ہے کہ غیرآباد مقامات کو فلاحی اور تعمیری اداروں میں بدل دیا جائے، اور ان سے حاصل ہونے والا فائدہ انہی کی برادری کو واپس لوٹا دیا جائے۔ یہ فرق دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ضروری ہے۔ بھارت مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہا ہے، ان کی مساجد کو مسمار کر رہا ہے، ان کے ماضی کے آثار کو مٹا رہا ہے۔ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ہم کہتے ہیں کہ جہاں کمیونٹی موجود ہے، وہاں مندر یا گردوارہ محفوظ رہے۔ جہاں تاریخ ہے، وہاں ورثہ محفوظ رہے۔ لیکن جہاں نہ لوگ ہیں اور نہ عبادت، وہاں عمارت کو کھنڈر نہیں بننے دیا جائے بلکہ اسے فلاحی مرکز یا تعلیمی ادارہ بنا دیا جائے تاکہ اس کے ثمرات آج کے انسانوں تک پہنچیں۔یہی اصل فرق ہے۔ وہاں مسلمانوں کے نشانات مٹائے جا رہے ہیں، یہاں ہندوں اور سکھوں کے ورثے کو معاشی و سماجی فائدے کا ذریعہ بنا کر انہی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف تعصب اور انتقام، دوسری طرف انصاف اور رواداری۔یہ پالیسی پاکستان کے لیے کئی پہلوں سے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ قومی وسائل غیر ضروری عمارتوں پر ضائع نہیں ہوں گے۔ اقلیتوں کو اعتماد ملے گا کہ ریاست ان کے ساتھ انصاف کر رہی ہے۔ دنیا کو پاکستان کا مثبت اور روادار چہرہ دکھایا جا سکے گا۔ شہروں میں معاشی سرگرمیاں اور روزگار بڑھے گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو عملی تقویت ملے گی۔ پاکستان کے پاس دنیا کو یہ دکھانے کا موقع ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے دشمن کی نفرت کا جواب بھی انصاف سے دیتی ہے۔ بھارت نے بابری مسجد گرائی تاکہ مسلمانوں کا وجود مٹایا جا سکے، پاکستان اگر کوئی غیرآباد مندر از سر نو تعمیر کرتا ہے تو اس کی اینٹوں سے اسکول، کالج اور اسپتال بنتے ہیں، اور اس سے حاصل آمدن اقلیتوں کی فلاح پر خرچ کی جاتی ہے۔ یہ پیغام دنیا کے سامنے جانا چاہیے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصل مسئلہ توازن کا ہے۔ نہ ہمیں ہر غیرآباد مندر کو یونہی کھڑا رکھنا ہے اور نہ ہی سب کو مٹا دینا ہے۔ ہمیں وہ راستہ اپنانا ہے جو عقل، انصاف اور دین کی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ جہاں کمیونٹی موجود ہے، وہاں عبادت گاہ بھی باقی رہے۔ جہاں تاریخی ورثہ ہے، وہاں اسے محفوظ کیا جائے۔ لیکن باقی جگہوں کو ترقی اور فلاح کا ذریعہ بنایا جائے۔ یہی راستہ پاکستان کیلئے بہتر ہے ۔ پاکستان کو دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے:”یہی ہے پاکستان جہاں ورثہ انصاف میں بدلتا ہے اور انصاف رواداری میں!”

