اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کے لیے 20 نکاتی منصوبہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بظاہر یہ منصوبہ ایک جامع امن فارمولہ دکھائی دیتا ہے جس میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، حماس کے ہتھیار ڈالنے اور غزہ کے بعد از جنگ نظامِ حکومت کے خدوخال شامل ہیں۔ لیکن اسکے اعلان کے بعد جس طرح تضادات اور اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں، وہ اس منصوبے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ سب سے پہلا تضاد خود پاکستان کے موقف میں ہے۔ وزیر اعظم نے اس منصوبے کی تائید کی جبکہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یہاں تک کہا کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں انہی وزیر خارجہ نے ایک مختلف بیانیہ پیش کیا اور واضح کیا کہ جو نکات امریکہ نے جاری کیے ہیں وہ ہمارے اصل مسودے سے مختلف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ترامیم کی گئی ہیں تو پرانے نکات کہاں گئے؟ اور کیوں پاکستانی قیادت عالمی فورمز پر اور اندرونِ ملک مختلف زبان بول رہی ہے؟ یہ تضادات سفارتی ساکھ کو کمزور کرتے ہیں اور عوامی سطح پر بے اعتمادی کو جنم دیتے ہیں۔ٹرمپ کا رویہ بھی غور طلب ہے۔ ایک جانب وہ حماس کو الٹی میٹم دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ قبول کرو ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ دوسری جانب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بیشتر اسلامی ممالک اس منصوبے کو پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیشتر ممالک نے صرف اصولی سطح پر امن کی خواہش کو سراہا ہے لیکن تفصیلات پر ابھی بھی سنجیدہ اعتراضات موجود ہیں۔ اسرائیلی دباؤ پر کی گئی ترامیم نے اس منصوبے کو مزید متنازع بنا دیا ہے، کیونکہ اب اسرائیل کو مرحلہ وار انخلا کے باوجود غزہ کے اندر بفر زون میں رہنے کا حق دے دیا گیا ہے جب تک کہ کوئی دہشت گردی کا خطرہ باقی ہے۔ یہ شق دراصل مستقل قبضے کی راہ ہموار کرتی ہے۔مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس میں مصر، قطر اور ترکی ثالثی کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے کو عملی شکل دینا ہے۔ مصر نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کو اس منصوبے کی مکمل قبولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ قطر اس عمل میں مالی اور انسانی امداد کی یقین دہانی کروا رہا ہے۔ امریکی نمائندے جیرڈکشنر اورسابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی پسِ پردہ رابطوں میں مصروف ہیں تاکہ”غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی”کے قیام کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے۔حماس نے عمومی طور پر امن کے اصولی تصور سے اتفاق کیا ہے مگر کئی اہم نکات پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ حماس کا مؤقف ہے کہ وہ اسرا کی رہائی اور انسانی امداد کے راستوں کی بحالی پر آمادہ ہے، لیکن وہ اسرائیلی افواج کی جزوی موجودگی یا کسی بفر زون کے قیام کو”قبضے کی توسیع”سمجھتی ہے۔ تنظیم نے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل کا انخلا غیر مشروط اور مکمل نہ ہوا تو کسی بھی منصوبے پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ اسی طرح وہ عبوری بین الاقوامی حکومت کے تصور پر بھی معترض ہے جس میں امریکی اثر غالب ہوگا۔مذاکرات میں چند اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ اسرائیلی انخلا کا واضح شیڈول طے نہیں ہو سکا، جبکہ تعمیرِ نو اور مالی امداد کے ذرائع پر بھی اختلافات ہیں۔ بعض مغربی طاقتیں چاہتی ہیں کہ تعمیرِ نو کا عمل بین الاقوامی بورڈ کی نگرانی میں ہو، مگر فلسطینی تنظیمیں اسے اپنی خودمختاری میں مداخلت سمجھتی ہیں۔ مصر کی کوشش ہے کہ دونوں فریق کم از کم جنگ بندی اور انسانی راہداری پر فوری اتفاق کریں تاکہ اعتماد سازی کا عمل شروع ہو سکے۔تاہم زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ معاہدہ فوری طور پر ممکن نہیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس پہلے ہتھیار ڈالے اور اپنے عسکری ونگ کو تحلیل کرے، جبکہ حماس چاہتی ہے کہ پہلے قبضہ ختم کیا جائے اور بعد میں کسی سیاسی حل پر بات ہو۔ اسی اختلاف نے اب تک مذاکرات کو نتیجہ خیز ہونے سے روکے رکھا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اگر کوئی عبوری معاہدہ طے پایا بھی تو وہ مرحلہ وار ہوگا اور اس کے نفاذ کے لیے بین الاقوامی مبصرین کی ضرورت پڑے گی۔ان مذاکرات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر یہ عمل ناکام ہوتا ہے تو خطے میں ایک نیا سفارتی بحران جنم لے سکتا ہے۔ ایران، ترکی اور قطر جیسے ممالک اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس ناکامی کا الزام فلسطینیوں پر ڈالیں گے۔ اس صورت میں مغربی امداد اور تجارتی رعایتوں کا سلسلہ متاثر ہو سکتا ہے، اور مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر نئی صف بندیوں کی طرف بڑھ سکتا ہے۔پاکستان کی پوزیشن بھی اس تناظر میں نہایت نازک ہے۔ ایک طرف وزیراعظم کی سطح پر اس منصوبے کی حمایت سامنے آئی ہے، دوسری طرف وزیر خارجہ نے متضاد مؤقف اختیار کر کے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ اگر منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان پر یہ دباؤ بڑھے گا کہ وہ امریکہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ کھڑا رہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی طرف بھی کسی نہ کسی سطح پر پیش رفت دکھائے۔ لیکن یہ قدم اندرونِ ملک شدید عوامی ردعمل کو جنم دے گا اور اگر منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو پاکستان کے لیے یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنے اصولی موقف کو اجاگر کرے اور دنیا کو باور کرائے کہ فلسطینی عوام کی رائے کے بغیر کوئی معاہدہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔آخرکار سوال یہی ہے کہ کیا امن کا یہ منصوبہ دراصل جنگ کے زخموں پر مرہم رکھ سکے گا یا یہ صرف ایک کاغذی خاکہ ہے جو طاقتوروں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تیار کیا گیا ہے؟ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب تک انصاف نہیں ہوگا، امن بھی محض ایک سراب ہی رہے گا۔ فلسطین کا مسئلہ طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ انصاف، خود ارادیت اور عوامی امنگوں کے احترام سے حل ہوگا۔ اگر ٹرمپ کا منصوبہ ان بنیادوں پر ازسرِنو تشکیل نہ دیا گیا تو یہ”امن کا لبادہ”دراصل”قبضے کا جال”ثابت ہوگا۔
کالم
ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ،ا من کا لبادہ یا قبضے کا جال؟
- by web desk
- اکتوبر 9, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 38 Views
- 6 دن ago