کالم

ٹرمپ کے بیانات عالمی امن کے لئے خطرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید عالمی رد عمل کے باوجود ایک بار پھر غزہ پر قبضے کا بیان دھوتا دیا ہے غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ خرید کر اپنی ملکیت میں لائیں گے غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت کے بیان پر قائم ہیں مشرق وسطی میں زمین کی تقسیم پر غور ہو سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ خیال رکھیں گے فلسطینیوں کا قتل نہ ہو، مشرق وسطی فلسطینیوں کو بسانے پر آمادہ ہوگا سعودی ولی عہد اور مصری صدر سے بات کروں گا تعمیر نو کیلئے مشرق وسطی کی ریاستوں کو حصہ دے سکتے ہیں غزہ کو مستقبل کیلئے اچھا مقام بنائیں گے ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ حماس کو غزہ میں واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی، فلسطینیوں کو تحقیقات کے بعد امریکا آنے کی اجازت دی جائے گی روسی صدر پیوٹن سے مناسب وقت پر ملاقات ہوگی دوسری جانب فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ کو خریدنے سے متعلق امریکی صدر کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے کی سازشیں ناکام بنائیں گے فلسطینی عوام اپنے علاقے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے یہود وہنود کی معاشی ترقی کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے کےلئے 2023کو بھارت میں منعقد ہونے والے دنیا کی بڑی معیشتوں جی 20 کے اجلاس میں دنیا کو تجارتی طور پر جوڑنے ممبئی کو سمندر کے ذریعے دبئی اور وہاں سے ایک سڑک بنا کر اس کو اسرائیل سے گزار کر حائفہ شہر کی بندرگاہ سے ملانے کا جو اعلان کیا گیا تھا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے غزہ کی آبادی کو بھگانے اور اس علاقے کو کھنڈر بنا کر یہاں دنیا کا خوبصورت ترین معاشی حب بنانے کی مذموم منصوبہ کار فرما تھی امریکہ اسرائیل اور بھارت کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ دو تین ہفتوں میں غزہ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا حماس جنگ بندی پر مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دے گی اور اسی بہانے اسرائیل کو غزہ پر اپنی مرضی کا قبضہ کرنے کا موقع مل جائے گا مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور صیہونی ریاست آتش وآہن اور بارود کی بارش کے باوجود جب اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی تو مجبور امریکہ کو مشرق وسطی کی تجارتی راہداری کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خود سامنے آنا اور غزہ میں جنگ بندی کا ڈرامہ کرنا پڑا جسے ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہے ہیں امریکی صدر کا یہ اعلان نیا نہیں قبل ازیں 2023 کے آخر میں بھی انہوں نے اپنے ایک بیان میں اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو غزہ کے معاملے میں براہ راست کردار ادا کرنے پر غور کریں گے ان کے اس بیان پر محتاط رجائیت پسند روئیے سے لے کر شدید مذمت جیسا رد عمل سامنے آیا تھا اب ایک بارپھر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان نے عالمی سطح پر ہلچل کی کیفیت پیدا کردی ہے اور عالمی برادری کا شدید ردعمل بھی سامنے آرہا ہے پاکستان’ چین’ روس’ سعودی عرب’ آسٹریلیا اور جرمنی سمیت متعدد ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پلان کو مسترد کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو خطے میں امن کی ناگزیر ضرورت قرار دیا ہے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانا عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے بھی منافی ہے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل اور منصفانہ آپشن ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے جبری بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے مسئلہ فلسطین کا حل نکالنے کی کوشش میں اسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے عالمی برادری کی اکثریت کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین میں صدیوں سے رہنے بسنے والوں کی ان کی اپنی زمین اور خطے سے کہیں اور منتقلی کی بات حلق سے نہیں اتر رہی سیاسی سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد غزہ پر براہ راست امریکی کنٹرول اس خطے میں امریکی مخالفت کو مزید مضبوط کرے گا امریکہ سیاسی پولر ائزیشن میں اضافہ ہوگا ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ایسا کوئی بھی اقدام امریکہ کو مشرق وسطی میں ایک نئے تنازع کی جانب لے جائے گا امریکی وزیر خارجہ اور ترجمان وائٹ ہاس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی وضاحت کر تے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نے غزہ میں امریکی فوجیں اتارنے یا وہاں قبضہ کرنے کے عزم کا اظہار نہیں کیا بلکہ غزہ سے ملبہ ہٹانے کی پیش کش کی ہے مگر گزشتہ روز ٹرمپ کے ایک بار پھر غزہ کا کنٹرول سنبھال کر اس کی تعمیر نو کرنے کے بیان سے لگتا ہے کہ امریکہ غزہ پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرکے حماس کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے اور اس کا جواز خطے میں امن و استحکام کا قیام بتایا جارہا ہے امریکی صدر کیتسلسل سے بیان کے مضمرات کو مکمل طور سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بیان اس کے تاریخی تناظر اور خطے وعالمی سیاست پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر قبضہ کی بات کیوں کہی ہے کیا ایسا ممکن ہو پائے گا اور یہ اقدام دنیا کو کس جانب لے جائے گا کیا واقعی ان کا غزہ پلان خطے میں امن واستحکام کو یقینی بنا سکتا ہے؟ بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے امریکی صدر کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اب خود اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں اور اپنے اس اقدام کے ذریعے اسرائیل کے علاقائی مفادات کا تحفظ اور اس کی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں امریکی صدر ٹرمپ غزہ پر قبضے کا اعلان کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ اس سرزمین سے صرف فلسطینیوں کی ہی نہیں بلکہ خود امت مسلمہ کی جذباتی وابستگی ہے اور وہ ایسی کسی صورت میں خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اس حوالے سے پاکستان کا غزہ کے عوام کا منتقلی کی بات کو غیر منصفانہ تکلیف دہ اور تشویش ناک قرار دینے کا عمل موجودہ صورت حال میں جرات مندانہ اور حقیقت پسندانہ ہے پاکستان نے کسی مصلحت کا شکار بننے کے بجائے دو ٹوک اپنا وزن فلسطین کے پلڑے میں ڈال کر ثابت کردیا ہے کہ وہ غزہ پر امریکی قبضہ کے اعلان کو کسی کسی صورت قبول نہیں کرتا اور پاکستان فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی فلسطین کے ساتھ کمٹمنٹ پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی وہ اس حوالے سے کوئی دبا قبول کرے گا ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ بارے عزائم پر پاکستانی دفتر خارجہ کا رد عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں آنے والی سیاسی تبدیلی کے باوجود پاکستان امریکی پالیسیوں اور اعلانات کی تائیدہ کی بجائے اہم اور حساس ایشو پر ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اصولی موقف پر کھڑا ہے سعودی عرب سے آنے والا ردعمل فلسطینی ریاست کیلئے غیر متزلزل حمایت کے اعادے کے ساتھ یہ واضح کر رہا ہے کہ وہ ٹھوس ضمانتوں کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عہد نہیں کرے گا برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے وطن واپس جانے اور تعمیر نو کی اجازت ہونی چاہئے ہمیں اس ضمن میں ان کے ساتھ ہونا چاہئے تاکہ ہم دو ریاستوں کے حل کی طرف بڑھ سکیں مشرق وسطیٰ دنیا کے حساس ترین علاقوں میں سر فہرست ہے جہاں کا امن پوری دنیا کے امن اور معاشی سلامتی کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے تعمیر نو کی آڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا اعلان حقیقت بن کر سامنے آتا ہے تو امریکی ری پبلکن سنیٹرزکرس مرفی اور لندے گراہم کے بقول یہ منصوبہ ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور مشرق وسطی میں جنگوں کا باعث بنے گا ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پلان علاقائی امن سے زیادہ مشرق وسطی کی تجارتی راہداری کے قیام کو یقینی بنانا اور گریٹر اسرائیل کا راستہ ہموار کرنے کی مذموم منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا برملا اعتراف صیہونی حکام بھی کر رہے ہیں قابل تشویش بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی سالہا سال سے اہل فلسطین کے حقوق کی پاسبانی اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے کثیر رقم خرچ کرنے مہاجرین کی آبادی کاری کے لئے اہم کردار ادا کرنے والے ادارے کو ختم کرنے کے علاہ عالمی فوجداری عدالت پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں وائٹ ہاس کے مطابق آئی سی سی کے حکام، ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثے منجمدان پر سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت نے امریکا اور اسرائیل کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے مندرجہ بالا اقدامات سے عالمی امن کو شدید خطرہ ہے اب بھی وقت ہے اقوام متحدہ اور عالمی برادری حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے پائیدار عالمی امن کو یقینی بنانے کےلئے اپنا کردار ادا کریں اور یاد رکھیں کہ دنیا میں پائیدار امن کا قیام فلسطینیوں کی غزہ سے جبری بے دخلی میں نہیں صیہونی ریاست کو نکیل ڈالنے امریکہ کو من مانیاں کرنے سے روکنے اور فلسطینیوں کو ان کا حق آزادی دینے میں مضمر ہے یہ کام آج ہو یا کل یا آنے والی کئی نسلوں کے بعد اس کے بغیر پوری دنیا میں باالعموم اور مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اطمینان ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے