کالم

ٹرمپ یوکرین جھگڑا !غزہ جنگ بندی

امریکی روایات کے برعکس صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو اپنے دفتر بلا کر نائب صدر کی موجودگی میں بے عزت کیا اور روس یوکرین جنگ میں یوکرین کی مالی امداد اور اسلحہ کی فراہمی کے احسانات جتائے۔ ٹرمپ نے زیلنسکی سے معافی مانگنے کے لئے لہا لیکن یوکرینی صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور مذاکرات سے اٹھ کر چلے گئے۔ یوکرینی صدر لندن پہنچے اور برطانوی وزیراعظم اور کنگ چارلس سے ملاقاتیں کیں۔ لندن میں یورپی یونین جرمنی اٹلی کینیڈا کے رہنماﺅں سے ملاقات کی ۔ انہوں نے یوکرینی صدر کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا ۔ یوکرین گزشتہ دو سال سے روسی صدر پوٹین کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا ہوا ہے اور ولادیمیر پوٹین کے توسیع پسندانہ عزائم ناکام بنا رہا ہے۔ بجلی اور گیس کے نظام سمیت ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے ہزاروں کی تعداد میں یوکرینی مہاجرین ہمسایہ ممالک میں پناہ گزیں بننے پر مجبور ہیں۔ آخر کار یوکرینی صدر کو ٹرمپ کے سامنے جھکنا پڑا اور مبینہ طور پر امریکی صدر کے نام خط میں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوکرین اور امریکہ کے درمیان معدنیات کے بارے میں ایک معاہدہ طے پانےوالا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کا دوسری بار حلف اٹھانے کے بعد بہت سے احکامات جاری کئے جن میں غیر قانونی تارکین وطن کے امریکہ میں پیدا ہونےوالے بچوں کے حق شہریت کی منسوخی شامل تھی۔ جس پر امریکہ بھر میں سخت رد عمل سامنے آیا۔ ڈیمو کریٹ۔ پارٹی کی حامی کئی ریاستوں نے امریکی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت کو بتایا کہ یہ امریکی آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جن ججوں نے عارضی طور پر اس آرڈر کو معطل کیا تھا ان کےخلاف ری پبلیکن پارٹی کے دو ممبران کانگرس نے مواخذے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ٹرمپ کے احکامات پر بھرپور طریقے سے عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے غیر قانونی تارکین وطن کو طیاروں میں بھر کر ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے دورہ امریکہ کے دوران بھارتیوں کے انخلا کو رکوانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے مینوفیکچرنگ کے مختلف شعبوں میں سستی لیبر کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ امریکہ ایک ملٹی نیشنل سوسائٹی معاشرہ ہے اسے دنیا بھر کے لوگ چلا رہے ہیں ۔ میکسیکو پر ڈیوٹیز لگائیں بعد میں واپس لے لیں لیکن انہوں نے دس ہزار ٹروپس امریکی بارڈر پر بھیجنے کی حامی بھر لی ۔ جو بائیڈن کے دور میں بھی میکسیکو نے امریکی سرحدوں کی حفاظت کےلئے فوجی دستے بھیجے تھے۔ ٹرمپ نے آتے ہی کینیڈا کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا اور اسے امریکہ کی 51 ویں ریاست بننے کا مشورہ دیا اور ٹیکسز بھی لگائے لیکن جب کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے انکھیں دکھائیں تو ڈیوٹی کے احکامات واپس لینے پڑے کینیڈا نے بھی بارڈر پر ٹروپس بڑھانے کی حامی بھر لی۔ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر بھاری ڈیوٹیز عائد کر دیں اس کے جواب میں چین کی حکومت نے بھی امریکی درآمدات پر بھاری ٹیکسز لگا دئے۔ ٹرمپ کے آنے سے امریکہ کی فلسطین کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی انہوں نے سفاک اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ساتھ بٹھا کر غزہ پر قبضے کا اعلان کیا سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کیا ۔ ٹرمپ نے اردن اور مصر کو بھی دھمکایا کہ وہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دیں ورنہ ان کی مالی امداد بند کر دی جائےگی۔ امریکہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کی امریکن ایڈ پروگرام کے تحت مدد کر رہا تھا صدر ٹرمپ نے اس پروگرام کو ختم کر دیا اور کہا کہ یہ پروگرام کرپشن کی جڑ ہے ۔ ٹرمپ کا اقتدار میں آنے سے پہلے غزہ میں عارضی جنگ بندی میں کردار ادا کرنے کامقصد صرف اسرائیلی قیدیوں کی رہائی تھا۔ مبینہ طور پر ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی یرغمالیوں کی رہائی کےلئے امریکہ نے حماس سے براہ راست رابطے کیا ہے حالانکہ امریکہ اسے دہشت گرد تنظیم کہتا آیا ہے ۔ پچاس ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت کے باوجود امریکی قیادت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے اور نیتن یاہو کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں اسرائیل حماس کے درمیان دوحہ میں مزاکرات جاری ہیں ان میں امریکی صدر ٹرمپ اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک مل کر غزہ کی تعمیر نو کا پروگرام بنا رہے ہیں اس میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اس سلسلے میں لاکھوں یونٹس تعمیر کئے جائینگے۔ صدر ٹرمپ اپنے ایکشن اور احکامات سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ انہیں صرف امریکی مفادات عزیز ہیں جن کی تکمیل کےلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران امریکہ کو عظیم قوم بنانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اس طرف تیزی سے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ کی پالیسیاں اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے