کالم

ٹریفک پولیس یا ایک منافع بخش انڈسٹری؟

سب سے پہلے ڈرائیونگ لائسنس سے شروع کرتے ہیں، راقم کا پہلا موٹر کار ڈرائیونگ لائسنس 1980ء کی دہائی میں بنا۔ کوئی خاص خرچہ نہ ہوا، لمبا چوڑے ٹیسٹ سے بھی نہ گزارا گیا۔ اسکی رینیوئیل غالبا ! بیس روپے سالانہ تھی۔ سالوں سال گزر گئے گاڑیاں چلاتے مگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کبھی چالان ہوا نہ کوئی خاص حادثہ پیش آیا اور نہ ہی کبھی ٹریفک یا ڈرائیونگ کے متعلقہ کبھی کوئی سیریس مسئلہ پیش آیا۔ وہ کاپی والا لائسنس تھا جسے سالانہ بنیادوں پر ڈاکخانے سے ریونیو کروایا جاتا رہا ۔ 2013تک کبھی کوتاہی نہ ہوئی، ہمیشہ بروقت تجدید کرواتا رہا لیکن اگلے سال یکدم قانون یا رولز میں ترمیم کردی گئی اور حکم صادر ہوا کہ کاپی والے۔لائسنس ختم،اب یوں رینیو نہیں ہوں گے بلکہ ہر ضلع میں واقع ٹریفک دفتر سے رجوع کرنا ہو گا جس پر وہ کمپیوٹرائزڈ لائسنس جاری کریں گے۔ یعنی جو سو روپیہ اس سال تجدید فیس کی مد میں سرکاری خزانے میں جمع ہونا تھا، ریاست نے ہی لینے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ آج بارہ سال گزرنے کے باوجود میں بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید نہ کروا سکا۔ یہ ایک ناقص پالیسی تھی ، بجائے حامل لائسنس کو یکدم لائسنس سے محرومی کے، چاہئے تو یہ تھا کہ ڈاک خانہ اس سال کی فیس وصول کرتا، لائسنس اپنے پاس جمع کر کے ایک چٹ یا پرمٹ جاری کرتا، ریکارڈ متعلقہ ضلع میں بھیجتا، متعلقہ ضلع اس پر کاروائی کرتا، کمپیوٹر سے جاری شدہ لائسنس واپس اسی ڈاکخانے بھجواتا اور اس پر ڈاک خرچ کے علاوہ جو مرضی ہے نئے رولز کے مطابق جتنی فیس بنتی وصول کرتا تو یہ تسلسل کبھی نہ ٹوٹتا کہ حامل لائسنس کو یکدم ایک بے تکے شاہی فرمان کے ذریعے ڈرائیونگ کی اجازت سے ہی محروم کر دیا گیا۔ میں نے کسی نہ کسی طرح تو یہ سال گزار لئیے، لیکن خزانے میں میری طرف سے تجدید فیس کی مد میں جمع ہونے والی رقم خزانے کی اپنی کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے جمع نہ ہو سکی جو ایک ناقص پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب آتے ہیں ٹریفک پولیس اور ٹریفک اتھارٹیز کی جانب سے عام عوام کیساتھ روزمرہ بنیادوں پر ظالمانہ روئیے کی طرف جس وجہ سے میں نے ٹریفک اتھارٹی کو حکومت کاکماؤپتر یا باقاعدہ ایک انڈسٹری سے تشبیہ دی ہے جو مسلسل اضافے اور منافع میں جا رہی ہے بلکہ عام عوام کے بچے ماندے خون کو چوسنے سے یہ ماشااللہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی جا رہی ہے۔ آئے روز دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹریفک اہلکار جتھوں کی صورت میں جگہ جگہ ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی بجائے، درجنوں موٹر سائیکلوں ، رکشوں ،ٹیکسیوں کے چالان کرتے پائے جاتے ہیں، ہزار منت ترلے کرو، ایک نہیں سنتے، یہ ٹرینڈ قسم کے اہلکار ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر ہزاروں دلیلیں دے کر ایک عام آدمی ہزار پانچ سو کمانے والے کو آجکل کم از کم ٹیکہ دو ہزار کا لگاتے ہیں ورنہ گاڑی بند اور اس صورت میں دھکے ہی دھکے۔ سنا ہے اہلکاروں کو ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ اس سے کم ناقص کارکردگی سمجھی جائے گی لہذا واپس نہیں آنا اور ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ اس سے تو یوں لگتا ہے کہ حکومت کے بہت سارے اللے تللے ٹریفک چالان ہی سے پورے کئے جا رہے ہیں ۔ اسلام آباد کے ایک ٹریفک آفیسر نے تو حد ہی کر دی، دھمکی دی کہ خلاف ورزی پر نا صرف بھاری بھر کم جرمانہ ہو گا، گاڑی بند یا ایف آئی آر بھی کروا دوں گا۔ انکی زیادتیوں کے قصے تو ہائی کورٹ تک بھی پہنچ چکے ہیں لیکن ہائی کورٹ کی بالکل نہیں چلتی کیونکہ ان اہلکاروں کا ”کلہ” بہت مضبوط ہے۔ ٹریفک اہلکاروں کے اس بے جا روئیے بلکہ بے حسی کی بڑی وجہ جمع شدہ رقم سے کمیشن کی ادائیگی بھی سننے میں آتی ہے، کوئی مرتا ہے تو مرے، پرچی ضرور کاٹنی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ چیکنگ پر لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں، مار کٹائی بھی لیکن چونکہ اتھرے ٹریفک اہلکار خاصے پاور فل ہوتے ہیں جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ انکا ”کلہ”خاصہ مظبوط ہوتا ہے تواس لیئے وہ ایسے سر پھرے عام بندے کی باجماعت دھلائی کر کے کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں پرچہ بھی کاٹ دیتے ہیں، یوں وہ چوں چراں کرے والا بندہ سسٹم کی بھینٹ چڑھ کر رل گیا ۔ ریاست ہو گی ماں کے جیسی یہ معلوم نہیں بیرسٹر اعتزاز احسن نے کس زعم میں آ کر اتنی بڑی بات کہہ ڈالی جو سننے اور محسوس کرنے کو تو بڑی بھلی لگتی ہے لیکن میں تو پچھلے ساٹھ سالوں سے ریاست کسی سوتیلی ماں بلکہ ایک ڈریکولی ماںکے روپ ہی میں دیکھ رہا ہوں ۔ ہر گزرے روز سے اگلا برا دن۔ ایسے ایسے رولز اور قانون کہ توبہ۔ایک مزدور کی دیہاڑی پندرہ سو روپے اور سلوک اس کیساتھ یورپ والا۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم لوگوں سے یہ ڈریکولا اب مزید کتنا خون مانگتا ہے ۔ اس خون آشام بلا نے کبھی آٹے چینی دال کا بھاؤمعلوم کیا ہے جو معمولی سے معمولی سبزی بھی آ جکل دو سو روپے کلو سے کم پر دستیاب نہیں لیکن ٹیکسوں پر ٹیکس لگاتی اس بلا کا پیٹ ہی نہیں بھرتا اور آدم بو آدم بوچنگھاڑتی اس نے جگہ جگہ چیکنگ کے نام پر بھتہ خوری کو اپنے عروج پر پہنچا رکھا ہے ۔ سنا ہے کہ کچھ جگہوں پر یہ جرمانے خزانہ سرکار میں نہیں بلکہ ویلفئیر کے نام پر کسی خاص مد میں جمع ہو رہے ہیں۔ خدا را، اپنی اس مفلس عوام پر مزید بوجھ مت ڈالیں، بجلی گیس کے بھاری بھرکم بلوں کے نیچے دبے غریب لوگ گھر سے موٹر سائیکل شوقیہ سڑکوں پر نہیں نکلتے، روزی روٹی ہی انکا مطمع نظر ہوتی ہے جو اگرڈنڈے کے زور پر چھین لی جائے، یا تو وہ موٹر سائیکل کو سر راہ جلا دیتے ہیں یا اپنے آپ کو ضرر پہنچا کر اپنا غصہ دور کرتے ہیں اور ایسے واقعات روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ حکومتی خسارے جرمانوں سے نہیں اچھی معاشی،تجارتی اور زراعتی پالیسیوں سے پورے ہوتے ہیں، گڈ گورننس کا تقاضہ ہے کہ حکومت عام آدمی کے معیار زندگی کو پہلے اپنی عوام دوست پالیسیوں سے بلند کرے اور پھر اسکے بعد اپنے تمام قوانین پر سختی سے عمل کروائے تو یہ عین انصاف معلوم ہو گا۔آخیر میں بڑے بھاری بھرکم جرمانے اور بے تکے چالان کرنیوالوں سے بڑی ہی معذرت کے ساتھ ایک غریب آدمی جو روزانہ اس بے رحم سسٹم کی بھینٹ چڑھتا ہے اسکی تعریف شاید ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور ہو نہیں سکتی: کسی نے جب ایک بھوکے غریب آدمی سے سوال کیا ۔دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟جواب آیا !چارروٹیاں ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے