اداریہ کالم

ٹکراﺅ سے گریزکیاجائے

idaria

حالیہ سیاسی بحران اور مخصوص سیاسی کلچر کو فروغ دینے میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑایا جارہاہے، سپریم کورٹ نے واضح احکامات دیے ہیں کہ نوے دن کے اندر کے پی کے اورپنجاب میں الیکشن کروائے جائیں لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ریاست کی رٹ خاص کرعدلیہ کی رٹ پر یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ لگ ایسے رہاہے کہ قانون کی حکمرانی کا تصور ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ملک میں یکساں نظام نظر نہیں آتا کہیں کسی کو بہت ہی زیادہ آزادی ملتی ہے تو کسی کے ساتھ سختی کے معاملات رہتے ہیں۔ قانون کی پاسداری اگر یکساں بنیادوں پر نہیں ہوگی تو ملک کا نظام بہتر نہیں چل سکے گا۔سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو کہیں سے نہیں لگتا کہ کسی کو ملک کی فکر ہے سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا، جس میں پنجاب میں انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے، سیکیورٹی صورتحال اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے الیکشن سے متعلق فیصلے کے خلاف قرارداد خالد مگسی نے پیش کی، جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ قرار داد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ ایوان وزیراعظم اور کابینہ کو خلافِ آئین فیصلے پر عمل نہ کرنے کا پابند کرتا ہے، حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ قرار داد کے مطابق ایوان سیاسی استحکام کیلئے ملک میں ایک ہی وقت میں عام انتخابات کو مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ عدالت عظمی کا فل کورٹ اس پر نظر ثانی کرے، وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی گئی ہے، ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحاً خلاف ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بھی قومی اسمبلی اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرارداد پیش کی جاچکی ہے۔ جبکہ وفاقی کابینہ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ اقلیتی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے منگل کو پنجاب میں انتخابات کے التوا سے متعلق الیکشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ اراکین قومی اسمبلی نے موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر پارلیمانی قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نظریہ ضرورت اب نظریہ محبت بن گیا ہے، اداروں کی لڑائی میں عوام مارے گئے، عدلیہ میں تقسیم ملک کےلئے خطرناک فسطائیت کو فروغ دیا جا رہا ہے، عدلیہ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے، فیصلہ فل کورٹ دے اور الیکشن ایک تاریخ ہوں، سپریم کورٹ کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا، عمران عدلیہ کا بھی لاڈلہ نکلا، عمران فسادی ملک میں انتشار چاہتا ہے، عمران پراجیکٹ ناکام ہو گیا۔ نظریہ ضرورت اب نظریہ محبت بن گیا ہے، جس ملک میں بھٹو پھانسی چڑھ گیا ادھر کچھ بھی ہو سکتا ہے، عمران خان کا تجربہ ناکام رہا، چار سال صرف چور چور کا شور مچایا گیا، اداروں کی لڑائی میں عوام مارے گئے، فل کورٹ بننی چاہیے تھی، ادارے کو پارٹی نہیں بننا چاہیے، پارلیمنٹ سب سے مقدس ادارہ ہے، ہمیں بالکل ڈٹ جانا چاہیے، ریل ہو یا جیل ہم سب ساتھ ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف نے ایک تقریب میں خطاب میں سپریم کورٹ سے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے، بڑا آدمی وہ ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرلے، ہمیں پاکستان کا مستقبل بچانا ہے، آج بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، میں یا میری حکومت ان چیلنجز کا سامنا نہیں کرسکتی اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کوئی سیاسی پارٹی الیکشن سے نہیں بھاگ رہی، جو پارٹی الیکشن سے بھاگے گی اس کی سیاست دفن ہو جائے گی،ہم نے آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے یا ذاتی لڑائیاں لڑنی ہیں، آج بھی عدالت سے کہیں گے اپنے فیصلے پر ریویو کرے، ابھی بھی موقع ہے وہ فیصلہ کریں جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہو۔وکلا نے قانون کی حکمرانی اور انصاف کے حصول کیلئے جدوجہد کی، وکلا کو یہ مقام کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا، انہوں نے عدلیہ بحالی کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ وکلا سے زیادہ آئین و قانون کیلئے کسی نے جدوجہد نہیں کی، وکلا نے عدلیہ بحالی کیلئے گولیاں، ڈنڈے کھائے، ہمیں تو حکم دیا جاتا ہے وزیر اعظم تنہا کچھ نہیں، جنہوں نے یہ حکم دیا اپنے اوپر فیصلہ کیوں نہیں لاگو کرتے، عدالت کا ہم سب احترام کرتے ہیں، 9 رکنی بینچ بنا پھر آخر میں 3 رکنی بینچ رہ گیا، چار، تین کی ایک بحث چل رہی تھی۔ اگر فل کورٹ کا مطالبہ مان لیا جاتا تو کوئی بھی اختلاف نہ کرتا، کوئی سیاسی پارٹی الیکشن سے نہیں بھاگ رہی، جو پارٹی الیکشن سے بھاگے گی اس کی سیاست دفن ہو جائے گی،اپیل دائر کی ہوئی ہے اس کا اتا پتا نہیں، سیاسی پارٹیوں کو فریق نہیں بنایا گیا، ہر اسٹیک ہولڈرز کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ ہم نے آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے یا ذاتی لڑائیاں لڑنی ہیں، آج بھی عدالت سے کہیں گے اپنے فیصلے پر ریویو کرے ، عدالت فل کورٹ بنا دے جو فیصلہ ہو گا قبول ہو گا۔ہماری سیاسی قیادت ، سیاسی جماعتیں او راہل دانش یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس پوری سیاسی اقتدار کی لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان ملکی یا ریاستی مفادات، عام آدمی کی سیاست اور ترقی کے مفاد پر پڑتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آہستہ آہستہ لوگوں کا موجودہ سیاسی نظام اپنی سیاسی ساکھ کو کھورہا ہے ۔ لوگ واقعی سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل ان موجود سیاسی قیادتوں یا حکومتوں کے پاس نہیں اور یہ طاقتورطبقات کے مفادات کے حقیقی محافظ ہیں ۔یہ عمل لوگوں کو بڑے پیمانے پر سیاسی عمل سے بھی لاتعلق کررہا ہے جو مجموعی طور پر ریاستی نظام کی کمزوری کا سبب بنتا ہے ۔سیاسی نظام او رجمہوریت کے حامیوں کو سوچنا ہوگا کہ ہم کیسے لوگوں کا تعلق جمہوری نظام کے ساتھ مضبوط بناسکتے ہیں کیونکہ جمہوریت وہیں اپنی اہمیت پیدا کرتی ہے جہاں لوگ جمہوریت کے سیاسی، سماجی او رمعاشی ثمرات کو نہ صرف محسوس کرسکیں بلکہ معاشرے میں مجموعی طور پر نظر آئے کہ جمہوریت عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہے ۔چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روایتی سیاسی مافیا کو پاکستانی سیاست کی جڑ سے اکھاڑپھینکاجائے کیونکہ ان کے سیاست میں رہتے ہوئے بہتری کی امیدکرنادیوانے کاخواب ہے۔
آرمی چیف کا کنٹرول لائن پر اگلے مورچوں کا دورہ
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاک فوج ملکی سلامتی کو درپیش ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کنٹرول لائن پر اگلے مورچوں کا دورہ کیا، انہوں نے اگلے مورچوں پر موجود افسران اور جوانوں سے بھی ملاقات کی ۔ آرمی چیف کو کنٹرول لائن کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی، انہیں لائن آف کنٹرول پر تعینات فارمیشنز کی تیاریوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ہدایت کی کہ مقامی آبادی سے ہر طرح کا تعاون کیا جائے، پرعزم رہیں اور اپنے فرائض جذبہ اور لگن سے انجام دیں، آرمی چیف نے افسران و جوانوں کے بلند حوصلہ اور زبردست آپریشنل تیاریوں کو سراہا۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج مسئلہ کشمیر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کی بھرپورحمایت کرتی ہے۔ مادر وطن کی سرحدوں، سلامتی اور دفاع کے لیے پاک فوج پرعزم ہے۔پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں کر سکتا۔ پاک فوج ملک کا سب سے زیادہ منظم، نظم و ضبط اور ذمہ دار ادارہ رہی ہے۔ مادر وطن کی محبت کے لیے میدان جنگ میں جوانوں اور افسروں کی عظیم قربانیوں کو قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ سیلاب اور دیگر آفات کے دوران پاک فوج ہمیشہ توقعات پر پورا اتری۔پاک فوج کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔پاک فوج ہمیشہ مادر وطن کی سر بلندی، وقار اور سلامتی کی ضامن رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri