نگران حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے بجٹ پر ثابت قدمی سے عمل’ توانائی کی قیمتوں میں مسلسل ایڈ جسٹمنٹ اور زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسیوں کے بہاﺅ سے مالیاتی اور بیرونی دباﺅ میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے آئندہ چند ماہ میں مہنگائی کی شرح میں کمی متوقع ہے-تاہم پاکستان کو نمایاں طور پر بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے جس میں جغرافیائی’ سیاسی کشیدگی’ اشیاءکی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور عالمی مالیاتی شرائط کا مزید سخت ہونا شامل ہیں –
عالمی مالیاتی فنڈ کا مزید مطالبہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے، گردشی قرضے کم کئے جائیں، اشرافیہ کی مراعات اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے، امیر پر ٹیکس اور غریبوں کو ریلیف دیا جائے، انرجی اور ٹیکس سیکٹر میںاصلاحات لائی جائیں، اسمگلنگ اور کرپشن پر قابو پایا جائے-البتہ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ آئی ایم ایف ٹیکس وصولیوں کی کارگردگی سے مطمئن اور اس نے 9 ہزار 415 ارب کا سالانہ ٹیکس ہدف برقرار رکھنے اور شرح سود مزید نہ بڑھانے پر اتفاق کیا ہے –
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا یہ کہنا کہ حکومت کفایت شعاری پر عمل کرتے ہوئے اخراجات کم کرکے خسارہ پر قابو پائے گی اور نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے خوش آئند ہے مگر ٹیکس چوری کی روک تھام اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لئے موثر کارروائی کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے-حکومت کی جانب سے حال ہی میں خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے ذریعے ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ، چینی اور دیگر زرعی اجناس کی ذخیرہ اندوزی، ڈالر کی سٹے بازی، پرتعیش اشیا کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں اسمگلنگ اور غیر قانونی باشندوں کے انخلا پر سخت انتظامی اقدامات کے نتیجے میں ان اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن ملکی معیشت اور ایکسچینج ریٹ ڈنڈے سے نہیں کنٹرول ہوتے بلکہ اس کیلئے ہمیں طویل المیعاد ملکی ایکسپورٹ، بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو اور ہم وقت پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرسکیں-
ملک کی مجموعی قومی پیدوار میں ٹیکس آمدنی کا حصہ جنوبی ایشیائی خطے میں اوسط سے کم ہے- قومی آمدنی میں ٹیکس آمدنی کا حصہ بڑھانے کے لئے ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے معیشت کا دستاویزی ہونا ضروری ہے- ملک میں متعدد کاروبار ایسے ہیں جہاں لین دین کا کوئی مصدقہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں اس لئے ٹیکس چوری کے راستے کھلے ہیں-ماضی میں ان شعبوں کی دستاویز سازی کے لئے حکومتوں نے بے دلی سے کام کیا اور ہلکی مزاحمت پر پسپائی اختیار کر لی گئی-حکومتیں بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں پر مزید ٹیکس لگا کر وصولیاں بڑھانے میں مصرو ف رہی ہیں یوں معیشت کا ایک حصہ ٹیکس سے بدستور محفوظ ہے جبکہ دوسری جانب تنخواہ دار طبقے یا پروفیشنلز پر ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے یہی حال ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا ہے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جنرل سیلز ٹیکس’ پٹرولیم لیوی اور ود ہولڈنگ ٹیکسوں کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا جس کے اثرات مہنگائی میں اضافے کی صورت میں سب کے لئے تکلیف دہ ہیں-
پٹرول ‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے ٹیکس در ٹیکس لگائے جانے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آرہی ہے- اگر ماضی میں حکومتوں نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کئے ہوتے اور معمولی مزاحمت پر پالیسیوں سے پسپائی اختیار نہ کی ہوتی تو آج توانائی کے شعبے پر بھاری ٹیکس اور اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کی18فیصد شرح کو کم کرنا ممکن ہوتا-مگر بد قسمتی سے حالات یہ ہیں کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور ایک چھوٹا حصہ ملکی معیشت کا سارا بوجھ اٹھا ر ہا ہے-پاکستان میں بر سر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اگر وسائل کا بہتر استعمال کیا ہوتا تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے-
پاکستان اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی ناممکن ہوچکی ہے بلکہ ان پر عائد سود کی ادائیگی بھی نہیں ہوپارہی- قرض کا طوق عوام کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے-عوام کولہو کے بیل کی طرح دن رات کام کرتے ہیں حکمران طبقات ان پر سوار ہوکر حکومت کرتے ہیں اور قرض لے کر عیاشیاں کر رہے ہیں – ارباب اختیار واقتدار یہ سوچنے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ اہم یا مشکل فیصلے محض پٹرول’ بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا ‘ عوام کو مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کرنا اور ٹیکسوں کی بھرمار کرکے غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالنانہیں ہوتے’ کسی بھی حکومت کے لئے تو یہ بہت آسان فیصلے ہوتے ہیں-بس عوام کے لئے مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں-
مشکل فیصلہ ایک آزاد’ جامع اور مضبوط ومربوط معاشی پالیسی ‘قوانین کو شفاف اور غیر مبہم بنانا ہوتا ہے-ملک کی معیشت کی سانسیں آئی ایم ایف کی محدود امداد کے بل بوتے پر چل رہی ہیںجس میں عوامی سہولت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے-صنعت اور خدمات کے شعبے روز بروز تنزلی کا شکار ہیں – ملک کو درپیش بحرانوں نے سب سے زیادہ کاروباری ‘ تنخواہ دار اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے – اس وقت پاکستان کے عام شہریوں کے لئے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے- ہماری سیاسی جماعتوں اور حکومتی اقتصادی ماہرین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بلا واسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عام آدمی کی زندگی مشکل بنانے اور جو شعبے پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس مسلط کرکے کام چلانے کا وقت گزر چکا ہے-
چنانچہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ٹیکس چوری کے رحجانات کو ختم کیا جائے-ہر وقت قرض لینا یا اس کے لئے یقین دہانیوں کا بندوبست کرنا یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کو رضامند کرنے کے لئے غریب عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کر دینے کو کسی صورت کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا-ویسے بھی آئی ایم ایف کے پیکیج کے ذریعے پاکستان معاشی بحران سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ مستقل طور پر ٹل سکتا ہے ۔ پاکستان کچھ سال اور آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیجزلے سکے گا اور ہر دفعہ شرائط مزید سخت ہوتی جائیں گی یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ ہمیں معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکنے کےلئے سخت فیصلے کرنے اور معیشت کی بنیادوں کو درست کرنا ہوگا جب تک معاشی اصلاحات پر توجہ اور آسان وسہل فیصلوں کی بجائے سخت فیصلوں اور معاشی حالات کے متقاضی فیصلے نہیں ہوں گے اور ان پر عزم صمیم کے لئے عمل درآمد نہیں ہوگا معاشی اوقتصادی بحران سے نکلا نہیں جاسکتا۔
کالم
ٹھوس معاشی اصلاحات وقت کا تقاضا
- by web desk
- نومبر 24, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 566 Views
- 1 سال ago
