چیئرمین ایف بی آر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بتایا ہے کہ نان فائلرز کو 1 کروڑ تک جائیداد خریدنے کی اجازت ہوگی معیشت مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ سیلز ٹیکس میں چار ہزار ارب سے زائد کی چوری ہورہی ہے ملک میں تیس لاکھ انڈسٹریل کنکشنز میں سے صرف تیس ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں۔ 60ہزار صنعتی صارفین کی نشاندہی کر لی گئی ہے نان فائلرز کاروبار اور افراد کیخلاف ایف بی آر کے لین دین ٹرانزیکشنز پر پابندی کے اقدامات کریں تو ہی ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھا سکیں گے محصولات میں کمی کے باعث حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے جس کے باعث معیشت پر دبا و¿ہے، راشد لنگڑیال نے اعتراف کیا کہ ایف بی آر میں اب بھی کرپشن ہورہی ہے۔ چیئرمین سٹینڈنگ خزانہ کمیٹی سید نوید قمر نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری 50 فیصد بلیک اکانومی ہے وزیر مملکت علی پرویز ملک نے کہا کہ جی ڈی پی کا 10فیصد کیش سرکولیشن کیساتھ پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے نان فائلرز کے اکنامک ٹرانزکشنز پر پابندی نہ ہونے کے باعث ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکا اب ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے وطن عزیز کو درپیش اقتصادی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اپنے طور پر اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات اور کچھ آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان کی شرائط پر عملدرآمد کی بدولت ملکی معیشت میں یقینا بہتری آ رہی ہے مگر استحکام کی منزل ابھی بہت دور ہے یہ درست ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے اور برآمدات بڑھنے سے تجارتی خسارہ بھی کم ہوا ہے بیرونی سرمایہ کار حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں معاشی اقدامات کی بدولت اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آ گئی ہے کاروباری سرگرمیوں میں اضافے سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں پاکستان کے عالمی ڈیفالٹ کے خطرے میں 93 فیصد کمی آئی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آئی ہے مگر کئی اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں جو غریب اور متوسط طبقات کی رسائی سے باہر ہیں نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ بھی صارفین کی پریشانی کا باعث ہے اور بھی بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے عوام کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے مگر ان تمام مسائل کا حل اور معاشی بحالی مزید اقدامات کی متقاضی ہے جن کیلئے حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے اس عمل میں اسے کئی رکاوٹوں کا بھی سامنا ہے مگر اپنے مقصد سے لگن اس کی کامیابی کی راہ ہموار کر رہی ہے اس ضمن میں ٹیکسوں کی ادائیگی لازمی امر ہے جس کے بغیر کوئی قوم اقتصادی خود کفایت کا تصور بھی نہیں کر سکتی چیئرمین ایف بی آر دستاویزی نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ سیلز ٹیکس میں چار ہزار ارب سے زائد کی چوری کا انکشاف کوئی نیا نہیں ملک میں غیر معمولی پیمانے پر ٹیکس چوری کی جاتی اور اس میں ادارہ جاتی نااہلی سمگلنگ اور طاقتور صنعتی دھڑوں کیلئے حکومتی مراعات جیسے عوامل ہیں لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے جو حل ناگزیر ہیں ان پر توجہ کم دکھائی دیتی ہے ملک میں سیلز ٹیکس کی مد میں سالانہ 4ہزار ارب سے زائد کی چوری ہورہی ہے مگر اس کا سدباب کرنے کیلئے درست اقدامات کے بجائے حکومت کے پاس ٹیکس آمدنی بڑھانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کر دیا جائے افراط زر میں سنگل ڈیجٹ پر آنے کے باوجود اس وقت اشیائے ضروریہ پر ٹیکسوں کی بلند شرح مہنگائی کا ایک بڑا سبب ہے اور المیہ یہ ہے کہ بلا تفریق اس کا اطلاق سبھی شہریوں پر ہوتا ہے مثالی معاشی نظام میں دولت مند افراد سے وصول کر کے کمزور معاشی حیثیت والے طبقے پر خرچ کیا جاتا ہے مگر یہاں کمزور طبقہ بھی اسی طرح تختہ مشق ہے تا کہ سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی آمدنی سے حکومتی اخراجات کو پورا میں مدد کرے یہ صورتحال ملک میں مہنگائی اور پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے ملک کو مالیاتی وسائل میں خود کفیل بنانے اور قرضوں کی محتاجی سے پائیدار بنیادوں پر نجات پانے کے لیے محصولاتی آمدنی کو مجموعی قومی پیداوار کے کم ازکم 13 فی صد کی سطح تک لانا ضروری ہے جبکہ یہ تناسب فی الوقت 9 فیصد کے قریب ہے اس کی وجہ کئی شعبوں سے مجموعی قومی پیداوار میں ان کے تناسب کے مطابق ٹیکس کا وصول نہ ہونا ہے ان میں زراعت خوردہ فروشی اور مختلف نوعیت کی خدمات سرفہرست ہیں پاکستا ن کا زرعی شعبہ جوجی ڈی پی کا 27فیصد حصہ فراہم کرتا ہے اور پاکستان کی چالیس فیصد لیبر فورس اسی شعبہ سے وابستہ ہے لیکن اس شعبے میں اصل ٹیکس نادہندگان بڑے جاگیردار ہیں جو ٹیکس چوری کرتے ہیں اور انکے سیاسی آثر و رسوخ کی وجہ سے حکومت اور ایف بی آر ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔ پاکستان کا موجودہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 9.2 فیصد ہے جو عالمی اوسط سے بہت کم ہے جبکہ جاپان میں یہ تناسب 34.1 فیصد جنوبی کوریا میں 32فیصد اور منگولیا میں 24.6 فیصد ہے ایشیائی معیشتوں کے تناظر میں یہ فرق پاکستان کے ٹیکس نظام کی خستہ حالی اورحکمران اشرافیہ کی غیر ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے پاکستان کو اس وقت بیرونی قرضوں کی بمع سود ادائیگی میں ایک تخمینے کے مطابق اوسطا 25ارب ڈالر سالانہ ادا کرنے پڑرہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف دوسرے مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ملنے والے نئے اور سابقہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے یہ رقم پوری کرنا محال ہورہا ہے ٹیکسوں کا حصول ریاست کا حق ہے مگر محاصل کا بوجھ امیروں پر ڈالا جانا اور غریبوں کی فلاح پر محاصل کا خرچ کرنا ہی کسی ملک کے معاشی نظام کے منصفانہ ہونے کا حقیقی پیمانہ ہے حکومت رواں مالی سال کے دوران ٹیکس تو جی ڈی پی کی شرح کو 13 فیصد تک بڑھانا چاہتی ہے لیکن ٹیکس چوری روکے بغیر جی ڈی پی میں ٹیکس کا حصہ تسلی بخش حد تک بڑھانا ممکن نہ ہو گا اس لئے حکومت بلا تاخیر ٹیکس نادہندگان اور ٹیکس چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کرے تاکہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو سکے