یہ امر باعث تشویش ہے کہ جس مکتب فکر کے اجتماعات میں درود و سلام کی صدائیں ماحول کو معطر کر دیتی تھیں اب اسکی صفوں میں بعض عناصر تشدد پر مائل ہیں ۔جو مکتب فکر اتحاد بین المسلمین کیلئے صف اول میں دکھائی دیتا تھا آج اسکی شناخت مسخ ہوتی جا رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی نے ملک کے آئین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔آئین میں مسلمان کی تعریف شامل کروائی۔ قران و سنت کو ریاست کا سپریم قانون قرار دلوایا۔ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تجویز کرنے کی تاریخی قرارداد پیش کی۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے آئینی ترامیم کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی۔ جب ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی سازش پروان چڑھ رہی تھی تو اہل سنت کی نمائندہ سیاسی تنظیم جمعیت علما پاکستان نے اتحاد امت کیلئے مرکزی کردار ادا کیا ۔ملی یکجہتی کونسل کی صدارت کافریضہ تمام مکاتب فکر نے بالاتفاق حضرت شاہ احمد نورانی کو تفویض کیا۔ نورانی میاں کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا وہ آج ٹی ایل پی کی صورت ایک بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ دلیل کی جگہ دشنام ،حکمت کی جگہ غصے اور محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ہے۔حکومت پنجاب نے ٹی ایل پی پر پابندی کا فیصلہ کر کے معاملہ وفاقی حکومت کو بھیج دیا ہے۔ جمیعت علما پاکستان کے غیر فعال ہونے سے جو خلا پیدا ہوا اس نے ٹی ایل پی کو جنم دیا ۔غیر دانشمندا نہ طرز عمل کی بدولت ٹی ایل پی ریاستی احتساب کی زد میں ہے۔ وفاقی حکومت کو پابندی کا قدم اٹھاتے ہوئے حکمت و تدبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔اس ماہ احتجاج کی کال دے کر ٹی ایل پی نے سب کو چونکا دیا۔ احتجاج چونکہ جمہوری اور آئینی حق ہے لہٰذا کوئی بھی جماعت جب چاہے یہ حق استعمال کر سکتی ہے۔تاہم کسی بھی حق کے استعمال کا جواز اور وقت کا انتخاب احتیاط سے کیا جانا چاہیے۔ یہ خیال رہے کہ آئین احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن راستے بند کر کے عوام کی بنیادی حقوق معطل کرنے کا لائسنس نہیں دیتا ۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس معاملے میں فہم و دانش کا استعمال نہیں کیا گیا۔ احتجاج پر مصر ٹی ایل پی اور امن و امان قائم کرنے کیلئے کوشاں حکومت کی اجتماعی دانش پر کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ٹی ایل پی کی ہٹ دھرمی اور حکومت کی بے تدبیری نے اپنا کام کر دکھایا ہے، شنید ہے کہ ٹی ایل پی ایک ملک کے سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرنا چاہتی تھی۔ ریڈ زون میں ایسی سرگرمی کی فی الحال اجازت نہیں۔ بنظر غائر یہ مطالبہ درست نہیں تھا ۔ ٹی ایل پی کے احتجاج پر ڈٹ جانے سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ ٹی ایل پی ملک بھر میں نماز جمعہ کے خطبات میں اپنے جذبات اور نظریات کا اظہار کر لیتی۔ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر کے تناظر میں احتجاجی مظاہروں اور لانگ مارچ جیسی سر گرمیوں سے اجتناب بہتر تھا۔ یہ معاملہ پرامن طریقے سے کیوں حل نہ ہو سکا؟ اس سوال کا جواب ٹی ایل پی کی قیادت اور ارباب اختیار کے ذمے واجب ہے ۔جب غزہ کے مظلومین کی حمایت میں کوئی اختلاف نہیں تو پھر احتجاج کا معاملہ ایک تنازعے کی شکل کیوں اختیار کر گیا۔ یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ ہر مرتبہ ٹی ایل پی کے احتجاج اور دھرنے تشدد اور خون ریزی سے آلودہ کیوں ہو جاتے ہیں۔ یہ معاملہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے شروع ہوا ٹی ایل پی کے مظاہرین لاہور سے کچھ فاصلے پر واقعہ مرید کے سے آگے نہ بڑھ پائے ۔حیرت انگیز طور پر 10اکتوبر جمعہ کے روز سے ہی جڑواں شہروں پنڈی اور اسلام آباد میں اہم شاہرات پر کنٹینر نصب کر دیے گئے۔ پانچ روز مسلسل اہم شاہرات بند رہنے سے دونوں شہروں میں معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں۔ عوام کو نقل و حرکت میں شدید دقت پیش آئی ۔مجموعی طور پر شاہرات کی بندش سے پنجاب سمیت پورے ملک میں بے چینی کی کیفیت رہی۔دستیاب اطلاعات کے مطابق جڑواں شہروں میں نہ تو احتجاج کی کیفیت تھی اور نہ ہی کوئی پرتشدد مظاہرہ کیا گیا۔ البتہ غیر ضروری طور پر شاہرات کی بندش سے عوام کی زندگی اجیرن کر دی گئی ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ٹی ایل پی کی قیادت سے بات چیت کا آغاز کیا جاتا۔ مقررہ اوقات میں منظم احتجاج کی اجازت دے کر یہ معاملہ پرامن انداز میں نبٹا دیا جاتا۔ اس کے برعکس اب احتجاج کا معاملہ ایک تنازع بن گیا ہے ۔ ابھی احتجاج کا معاملہ حل نہیں ہوا تھا کہ مغربی سرحد پر نام نہاد افغان فوج اور فتنہ خوارج کے دہشت گردوں نے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ کر دیا ۔حملے کے وقت طالبان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ مولوی متقی ہندوستان کی سرزمین پر جے شنکر کے پہلو میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف الزام تراشیاں کر رہے تھے ۔محسن کش پڑوسی اور بھارت کے پروردہ دہشت گردوں کے خلاف وطن کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے کئی فرزندان وطن شہید ہو گئے۔ 200 سے زائد حملہ آوروں کو بھی واصل جہنم کر دیا گیا۔ یہ سرحدی حملے پاکستان کی سلامتی کو لاحق شدید خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ان حالات میں اندرونی استحکام اور اتحاد درکار ہے۔ قوی امید تھی کہ سرحدوں پر کشیدگی اور دشمن کے حملوں کے پیش نظر ٹی ایل پی احتجاج کا منصوبہ موخر یا منسوخ کر دے گی۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مقام افسوس ہے کہ حکومتی نمائندے بھی ٹی ایل پی کی قیادت سے موثر رابطے کرنے میں ناکام رہے ۔ بعض حکومتی ترجمان اور وزیر حالات کی نزاکت کو نظر انداز کر کے شعلہ بیانی اور بے تکے الزامات میں مشغول ہیں۔ یہ روش جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے ۔ حکومت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کی جانوں کے ضیاع پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔وقت آگیا ہے کہ احتجاج کیلئے مناسب قانون سازی کے ذریعے پہلے سے بعض مقامات کا تعین کر دیا جائے۔ احتجاج کی آڑ میں پرتشدد کاروائیوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ پرتشدد ہجوم اور بلوائیوں سے نبٹنے کیلئے پولیس کی استعداد بڑھانے کے لیے عملی اقدامات درکار ہیں۔ ٹی ایل پی اور اس طرح کی دیگر تنظیمیں بھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ اجتماعی دانش کی قوت سے وطن عزیز میں اتحاد اور امن کی فضا بحال کی جائے۔

