کرم میں لگی آگ، قصور میرا ہے یا کہ تیرا،”روم جل تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا“اس ضرب المثل کی روشنی میں کرم پارا چنارکے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ ضرب المثل اس مخدوش صورت اُن پر صادر آئے گی جو صوبے کا حکمران ہے۔ سردار علی امین گنڈا پور بانسری بجاتا رہا جب بس میں سوار مسافروں کو دو ماہ قبل سرعام گولیاں مار کر بچے عورتوں نوجوانوں اور بزرگوں سمیت ایک سو تیس مسافروں کو شہید کیا گیا تھا جس کی وڈیو بنا کر دنیا ساری کو بتایا گیا تھا کہ ہم انسان نہیں وحشی درندے ہیں،یہاں جنگل کا قانون ہے۔ انسان نہیں ناگ ہیں۔مشہور شاعر محترم مقصود جعفری کا یہ شعر اس موقع کی مناسبت سے موزوں ہے۔
شہروں میں ناگ پھرتے ہیں انسان کے روپ میں
بہتر یہی ہے جعفری جنگل میں جا بسیں
ایک سو تیس لاشوں کو چھوڑ کروزیر اعلی گنڈاپور سرکاری مشینری کے ساتھ اسلام آباد پر دھرنا دینے چل پڑے تھے جبکہ اس خونیں کھیل کے بعد ان کی ساری توجہ کرم کے علاقے پاراچنار کی طرف ہونی چاہیے تھی۔ یہ ان کے زخموں پر مرہم رکھتے لیکن نہ ان کو نہ ان کے بانی لیڈر کو اور نہ ہی ان کے مقامی لیڈروں کو پاراچنار کے بے بس مظلوم عوام کو لہو لہان ہونے پر ترس آیا اور چھوڑ کر سرکاری مشینری کے ساتھ اسلام آباد دھرنا دینے روانہ ہوئے۔ یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ اس جماعت کا کام ملک سنوارنا نہیں اسکو بگاڑنا ہے۔اس وقت متاثرہ علاقوں کے اسپتالوں میں سو سے زیادہ بچے ادوایات نہ ملنے کی وجہ سے دنیا سے جا چکے ہیں۔ دوسرے مریض موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ تمام راستے بند ہیں۔جس سے کھانے پینے کی اشیا اور ادوایات ختم ہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں جو ایک دوسرے کو جان سے مار رہے ہیں۔ یہ تو انسان نہیں ، اب صوبے کے حکمرانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لو۔ اب انہوں نے مذاکرات کی راہ اختیار کر لی ہے ۔ دیر آید مگر درست آید۔ جو آگ دشمن نے کرم کے علاقے پاراچنار میں لگا رکھی ہے اسے ہم سب نے مل کر بجانا ہے۔ مرکز ان کا ساتھ دے رہا ہے ۔ اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی ان سے بھرپور تعاون بھی کر رہے ہیں۔ یاد رہے یہ تمام رونقیں عزتیں جو ملی ہیں اس ملک پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ دشمن سندھ، بلوچستان اور کبھی خیر پختونخوا کا امن تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ملک کے دشمن اور اس دشمن کا ساتھ دینے والوں کو یہ قوم کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ گو کہ ملک دشمنوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن یہ منظم ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ایک ہی جماعت کی حکومت کئی سالوں سے اس صوبے پر حکمرانی کرتی چلی آرہی ہے۔مگر اچھے کاموں کے بجائے برے کاموں سے جانے جاتے ہیں اگر اچھے کاموں کی دھوم ہوتی تو اس جماعت کو ضرور کریڈٹ دیتے۔ اب جو حالات انکے صوبے کے ہیں یہی جماعت اسکی قصوروار ہے۔ پاراچنار میں لگی اگ کو اب ہم سب نے مل کرختم کرنا ہے۔ اس ملک کا دشمن ہم سب کا دشمن ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے یہ دشمن ہمارے ملک کا امن تباہ کرتا رہتا ہے۔ اسی دشمن کی وجہ سے پاکستان کا ایک حصہ ہم سے دو لخت ہو چکا ہے اب یہ دشمن دوسری طاقتوں سے ملکر اس کے یہ مزید ٹکڑے کرنا چاہتا ہے ہمیں کمزور دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ دشمن ہمارے گھر کے اندر سے نمک حرام لوگوں سے ملکر سازشیں کرتا ہے۔ کراچی ہمارا روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا۔ اس دشمن نے اسی شہر میں نو گوایرایا بنایا بوری بند لاشیں دیں۔ بھتہ نہ دینے والوں کے کارخانے مزدوروں سمیت جلادیا کرتے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھنے کارخانے بند ہو گئے ہیں آج بھی یہ دشمن بلوچستان، خیبر پختونخوا کا امن تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کی فضا پیدا کر رہا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کے ساتھ محب الوطنی کا مطاہرہ کریں گے تو امن ہو گا۔ اس ملک میں قدرت نے معدنیات کے خزانے ہمیں دے رکھے ہیں۔ اس ملک کو بگاڑنے کی نہیں سنوارنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ اگر ہم جھوٹ سے ہی نجات حاصل کر لیں تو یہ ملک سنور سکتا ہے جھوٹی ایف آئی آر لکھنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں پچھلی حکومت نے سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو جیل میں ڈالنے کےلئے منشیات پر مبنی جھوٹی ایف آئی آر کا سہارا لیا تھا جب مقدمہ چلا تو جو کچھ ایف آئی آر میں لکھا گیا وہ سب جھوٹ ثابت ہوا اور جیل سے رہا ہو گئے۔ اس وقت کے ایک وزیر نے پریس کانفرنس کرتے وقت قسمیں کھائیں کہ یہ سچی ایف آئی آر ہے جن کےساتھ پریس کانفرنس کی انہوں نے بھی وردی پہن کر جھوٹ بولا تھا اب رانا صاحب کو چاہیے تھا کہ ایسا کرنے والوں کےخلاف ایکشن لیتے انہیں نشان عبرت بناتے تاکہ جھوٹی ایف آئی آر لکھنے کا سلسلہ بند ہو جاتا مگر خاموش ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے ان کے دور اقتدار میں ایک صحافی کو منشیات پر گرفتار کیا گیا۔ اس ایف آئی آر کو رانا ثنااللہ نے بھی رد کیا تھا کہا ایسا کرنا غلط ہے بحرحال عدالت سے انہیں رہائی ملی۔ ہم سب کو ایسا کرنے والوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ہو گی۔انہیں ایسا کرنے سے منع ہی نہیں ان کو سزائیں بھی دیں۔ انہیں نوکریوں سے فارغ کریں۔ یہ دونوں حضرات رہائی کے بعد بھی خاموش ہیں ۔لگتا ہے وہ دن دور نہیں جب یہ ایک بار پھر ان جعلی ایف آئی آر کا سامنا کرتے ہوئے ہم انہیں دیکھیں گے۔ اب جو کچھ کرم کے علاقے پاراچنار میں ہو رہا ہے یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دشمن کر رہا ہے۔ تیل دشمن نے پہلے سے گرایا ہوا تھا بس چنگاری لگانے کی دیر تھی کہ اس آگ نے سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بدقسمتی یہ ہوئی کہ مقامی حکومت نے اس جانب توجہ دینے کے بجائے اسلام آباد کی طرف چڑھ دوڑتے رہے۔ دشمن وہاں پہلے سے موجود تھا جس نے جلتی پر تیل ڈالا اور آگ مزید پھیل گئی۔ اب اس علاقے کے تمام راستے بند ہیں۔ نہ کوئی جا سکتا ہے اور نہ کوئی آ سکتا ہے۔ کچھ گولیوں کے لگنے سے مر رہے ہیں اور کچھ مریض گولیاں نہ ملنے سے مر رہے ہیں۔ کھانے پینے اور ادوایات کا وہی حال ہے جو فلسطین میں ہے۔ ہم فلسطین والوں کی حالت پر شرمندہ اور رو رہے تھے کہ دشمن انہیں مار رہا ہے۔یہاں تو مارنے والے اپنے مسلمان بھائی ہیں۔ ایسا رول ادا کرنے والے مسلمان تو کیا انسان نہیں ہیں ۔ ایسی ہی حالت زار اب کرم کے علاقے پاراچنار میں دیکھ رہے ہیں ۔ اس علاقے کے مسائل پر مقامی حکومت نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھی۔ دشمن اب اس علاقے میں گھس کر ایک آزاد ملک کے آزاد علاقے کو فلسطین بنا چکا ہے۔ ایسا ہونا ہم سب کےلئے باعث شرم ہے۔ جو بھی اس دشمن کا ساتھ دے رہا ہے اسے بھی دشمن سمجھ کر اسے بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
کالم
پارا چنار”قصور میرا ہے یا کہ تیرا“
- by web desk
- جنوری 1, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 284 Views
- 6 مہینے ago