پارلیمنٹ نے الیکشن کے حوالے سے کچھ نئی ترامیم منظورکی ہیں جس کے تحت نگران حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پہلے سے جاری منصوبہ جات کے حوالے سے مختلف اداروں کے ساتھ اب بات چیت کرنے کی اہل ہوگی ، اس کے ساتھ ساتھ ان ترامیم میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے بھی کچھ نئی ترامیم لائی گئی ہے جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب الیکشن کمیشن رات 12بجے تک رزلٹ اناو¿نس کرنے کا پابند ہوگا اور اگر نتائج میں تاخیر ہوئی تو اس کی وجوہات بتانے کا بھی پابند ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ نئی ترامیم کے تحت اگر رات 12بجے تک انٹرنیٹ نہ ہو تو پھر متعلقہ پولنگ انچارج خود نتائج پہنچانے کا ذمہ دار ہوگا اور اگلی روز صبح دس بجے تک ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے تاکہ نتائج میں تاخیر یا کوئی ردبدل کا امکان پیدا نہ ہوسکے ، اس کے علاوہ ایک اور اہم ترمیم یہ بھی کی گئی ہے کہ اگر ممبر 60دن کے اندر اپنی نشست کا حلف نہیں اٹھائے گا تو وہ سیٹ خالی تصو ر ہوگی کیونکہ اس سے قبل آئین میں اس حوالے سے کوئی خاص شق نہ تھی اور بعض ممبران منتخب ہونے کے باوجود دو دو سال تک حلف نہیں اٹھا تے تھے جس کے باعث ووٹرز بچارے مارے مارے پھرتے تھے اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوا کرتا تھا ۔پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کثرت رائے سے منظور کیا اورترمیمی بل کی منظوری شق وار دی گئی۔نگران حکومت سے متعلق شق230 میں ترمیم کر دی گئی ہے اور شق 230کی ذیلی شق 1 اور 2میں ترمیم کی گئی ہے۔ترمیم کے مطابق نگران حکومت کوئی نیا معاہدہ نہیں کرسکے گی، نگران حکومت کو دو فریقی اور کثیرفریقی جاری معاہدوں پر فیصلوں کا بھی اختیار نہیں ہوگا، نگران حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار ہوگا۔ترمیم کے تحت نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی، نگران حکومت ملکی معیشت کے بہتر مفاد سے متعلق ضروری فیصلے کر سکے گی۔مشترکہ اجلاس نے امیدوار کو تین پولنگ ایجنٹ نامزد کرنے کا اختیار دینے کی ترمیم بھی منظور کر لی جس کے بعد امیدوار کسی ایک پولنگ سٹیشن پر 3 پولنگ ایجنٹس کے نام دے سکے گا، جن میں سے صرف ایک پولنگ ایجنٹ ہی پولنگ اسٹیشن کے اندر رہے گا، پریذائیڈنگ افسر کو ووٹرز کی لسٹ پولنگ سٹیشن کے باہر آویزاں کرنے کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔پوسٹل بیلٹنگ کو شفاف بنانے کیلئے بھی ترمیم منظور کی گئی ہے، الیکشن کمیشن انتخابات سے قبل جاری کردہ پوسٹل بیلٹ کی تفصیل ویب سائٹ پر ڈالنے کا پابند ہو گا، ہارنے اور جیتنے والے امیدوار کے درمیان ووٹ کا فرق 5 فیصد ہونے پر دوبارہ گنتی ہو سکے گی، قومی اسمبلی 8 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست میں 4 ہزار ووٹ کا فرق ہو تو ری کانٹنگ ہو گی، ریٹرننگ افسر اپنی نگرانی اور امیدواروں کی موجودگی میں گنتی کروائے گا۔الیکشن ایکٹ بل منظور ہونے کے بعد پریذائیڈنگ افسر نتیجے کی کاپی فوری طور پر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجنے کا پابند ہو گا اور حتمی نتیجے کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو بھیجے گا، انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں پریذائیڈنگ افسر اصل نتیجہ خود پہنچانے اور الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہو گا، تاخیر کی صورت میں ٹھوس وجہ بتائے گا، پریذائیڈنگ افسر کے پاس الیکشن نتائج کیلئے اگلے دن صبح دس بجے کی ڈیڈ لائن ہو گی۔الیکشن ایکٹ بل میں نادرا کو بھی نئے شناختی کارڈ کے ریکارڈ کی الیکشن کمیشن کو فراہمی کا پابند بنایا گیا ہے، الیکشن کمیشن پولنگ سے ایک روز قبل شکایات نمٹائے گا، امیدوار 60 روز میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کی نشست پر حلف لینے کا پابند ہو گا، حلف نہ لینے پر سیٹ خالی تصور کی جائے گی، سینیٹ ٹیکنوکریٹ سیٹ پر تعلیمی قابلیت کے علاوہ 20 سالہ تجربہ درکار ہوگا۔پولنگ ڈے سے 5 روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں ہو گا، انتخابی اخراجات کیلئے امیدوار پہلے سے زیر استعمال بینک اکانٹ استعمال کر سکیں گے، حلقہ بندیاں رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر کی جائیں گی، حلقہ بندیاں انتخابی شیڈول کے اعلان سے 4 ماہ قبل مکمل ہوں گی، تمام انتخابی حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد برابر ہو گی، کسی حلقے میں ووٹرز کی تعداد میں فرق 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا، حلقہ بندیوں کے خلاف شکایت 30 روز میں کی جا سکے گی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق 230 پر اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں شق 230 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ اب نگراں حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدوں کا اختیار ہوگا اور وہ پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرسکے گی۔ ترامیم کے نتیجے میں نگراں حکومت کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی، البتہ پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی۔
ایم کیو ایم کی وفدکی وزیر اعظم سے ملاقات
متحدہ قومی موومنٹ حکومت میں اتحادی پارٹی ہے اور کراچی جیسی اہم علاقے میں اکثریت رکھتی ہے اسے حکومت میں ہونے کے باوجود بہت ساری شکایات ہیں ، اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)کی قیادت نے اہم ملاقات کی، ملاقات میں انہوں نے کے الیکٹرک کیخلاف شکایات کے انبار لگا دیئے۔ملاقات کے دوران وزیراعظم اور ایم کیو ایم وفد میں مجموعی سیاسی صورتحال پر بات چیت کی گئی، ایم کیو ایم قیادت نے شہباز شریف سے کہا کہ کے الیکٹرک کی اوور بلنگ سے کراچی کے شہریوں میں لاوا پک رہا ہے۔وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کی درخواست پر فوری اقدام کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کو کراچی میں کے الیکٹرک کےساتھ اجلاس کا حکم دے دیا۔ایم کیو ایم نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ ساتویں قومی خانہ و مردم شماری کے عبوری نتائج موجودہ حکومت جاری کرے، وزیر اعظم نے کہا کہ تاحال پرانی حلقہ بندی، مردم شماری پر اگلے الیکشن کا فیصلہ نہیں ہوا۔شہباز شریف نے ایم کیو ایم وفد کو یقین دلایا کہ نگران حکومت کے معاملے پر ن لیگ کمیٹی، مردم شماری پر وفاقی وزارت کے حکام سے بات چیت ہو گی، تمام فیصلے اتحادیوں کی مشاورت سے ہوں گے۔وفاقی حکومت جاتے جاتے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانا چاہ رہی ہے ، عام انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے بعد اس موجودہ اتحاد کی کیا صورتحال ہوگی اس بات کا فیصلہ تو یقینی طور پر ہر سیاسی جماعت اپنی ایگزیکٹیو کونسل سے مشاورت کے بعد ہی کرے گی تاہم امکان یہ ہے کہ ایم کیو ایم اپنی شرائط کے ساتھ اسی اتحاد کا حصہ بننے کو ترجیح دے گی
بارشوں سے ملک بھر میں ہونیوالی تباہی
مون سون کی بارشوں نے ملک بھر میں ایک بار پھر تباہی پھیلادی ہے جس کے باعث ملک میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اتنا بڑا ادارہ جسے ہر سال کروڑوں روپے کے فنڈ محض اسی مقصد کیلئے دیئے جاتے ہیں کہ عوام کو اس تباہی سے بچائے مگر یہ فنڈز عملی طور پر لگنے کی بجائے کاغذات میں خانہ پوری کرکے مبینہ طور پر این ڈی ایم اے کے افسران خورد برد کرلیتے ہیںجس کے باعث نشیبی علاقوں میں ہلکی سے بارش بھی تباہی مچادیتی ہے اور سینکڑوں قیمتیں جانیں ضائع چلی جاتی ہیں مگر این ڈی ایم اے سیلاب سے بچاو¿ کیلئے کوئی مستقل نظام ابھی تک اپنا نہیں سکی اور ہوتا یہی ہے کہ ذرا سی ہونیوالی بارش پر تباہی مچ جاتی ہے ، اس حوالے کوئی مستقبل اہمتام ہونا چاہیے ۔ این ڈی ایم اے نے حالیہ مون سون بارشوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصان سے متعلق رپورٹ جاری کردی۔ 25جون سے اب تک ملک بھر میں بارشوں کے باعث مختلف حادثات میں 150 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 62مرد، 25خواتین، 63بچے شامل ہیں، سب سے زیادہ اموات پنجاب میں 66رپورٹ ہوئیں، بارشوں سے خیبرپختونخوا میں 41، بلوچستان میں 6اموات ہوئیں۔سندھ میں 15 اور آزاد کشمیرمیں6 افردا زندگی کی بازی ہار گئے، اسلام آباد میں 11افراد جاں بحق ہوئے۔ ملک بھر میں کل 233 افراد زخمی ہوئے، زخمیوں میں 99 مرد، 62 خواتین، 72 بچے شامل ہیں، اس عرصے کے دوران بارشوں سے ملک بھر میں کل 468 گھروں کو نقصان پہنچا۔
اداریہ
کالم
پارلیمنٹ میں نئی ترامیم کی منظوری
- by web desk
- جولائی 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 612 Views
- 1 سال ago