خطے میں طاقت کا نیا توازنپاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے خاص اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ مذہبی ہم آہنگی، اقتصادی تعاون اور سیاسی ہم خیال رویے نے دونوں ممالک کو کئی مواقع پر ایک دوسرے کا قدرتی اتحادی بنائے رکھا ہے۔ تاہم، حالیہ دفاعی معاہدہ ان تعلقات کو محض روایتی حدود سے نکال کر ایک بالکل نئی تزویراتی جہت عطا کرتا ہے۔ اس معاہدے کی سب سے نمایاں خصوصیت وہ شق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے، تو وہ حملہ دونوں پر تصور ہوگا۔ یہ جملہ سننے میں اگرچہ سادہ لگتا ہے، مگر اس کی گہرائی اور اثرات نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ پورے خطے کی سلامتی، عسکری توازن اور عالمی سفارتی بساط پر نمایاں تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔پاکستان ماضی میں SEATOاور CENTOجیسے اتحادوں کا حصہ رہا، جن کا مقصد سرد جنگ کے تناظر میں نظریاتی صف بندی تھا۔ چین کے ساتھ دفاعی شراکت داری اور اسلامی عسکری اتحاد میں شمولیت جیسے اقدامات بھی اہم تھے، مگر یہ سب محدود یا وقتی نوعیت کے تھے۔ موجودہ معاہدہ اس لیے منفرد ہے کیونکہ یہ نہ صرف تذویراتی اعتماد اور عملی دفاعی تعاون پر مبنی ہے بلکہ ایک دوسرے کی سلامتی کو مشترکہ قومی مفاد کا درجہ دیتا ہے۔امریکہ کے مشرقِ وسطی سے جزوی انخلا اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے تناظر میں سعودی عرب کی یہ حکمت عملی کہ وہ پاکستان جیسی جوہری طاقت کے ساتھ دفاعی اشتراک قائم کرے، محض عسکری معاہدہ نہیں بلکہ طویل المدت تزویراتی فیصلہ ہے۔ یہ معاہدہ بتا رہا ہے کہ سعودی عرب اب امریکی "سیکیورٹی چھتری” پر انحصار کم کر کے ایک خود مختار دفاعی پوزیشن اپنانا چاہتا ہے، جس میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کرے گا ۔ اگرچہ معاہدے میں پاکستان کی جوہری صلاحیت کے حوالے سے براہِ راست کوئی ذکر موجود نہیں، مگر بین السطور اس کا عندیہ ضرور ملتا ہے۔دفاعی اتحاد میں”متقابل مزاحمت”کے اصول کی شمولیت سے ممکنہ طور پر سعودی عرب کو پاکستان کے اسٹریٹجک ڈیٹرنس کا بالواسطہ تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔ اور یہ نکتہ بھارت اور اسرائیل کیلئے باعثِ تشویش ہو سکتا ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ آیا اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی عرب کی حوثی مخالف حکمتِ عملی میں بھی شریک ہوگا؟ اگرچہ باضابطہ طور پر اس کی کوئی تصدیق نہیں مگر مشترکہ دفاع کے اصول کے تحت مستقبل میں ایسی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔خاص طور پر جب سعودی عرب اپنی جنوبی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدامات کی تلاش میں ہے۔اس معاہدے کا ایک اور پہلو بھارت اور اسرائیل کیلئے اہم ہے ۔بھارت، جو مشرق وسطی میں اپنی اقتصادی اور سفارتی رسائی کو وسعت دے رہا ہے، اب پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو بھی تذویراتی حساب میں شامل کرنے پر مجبور ہوگا ۔اسی طرح اسرائیل، جو ایران کیخلاف عرب دنیا کو اپنے قریب لا رہا تھا، شاید اب پاکستان کی شمولیت سے دفاعی توازن کے ایک نئے چیلنج کا سامنا کرے گا۔ اگر معاہدے کی روح کے مطابق "ایک پر حملہ، سب پر حملہ”کا اصول نافذ ہوتا ہے، تو اس کا دائرہ اسرائیل جیسے ممالک کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی دفاعی معاہدے کی اصل جان اس کا عملی نفاذ ہوتا ہے۔ کیا پاکستان اور سعودی عرب اس معاہدے کو صرف بیانات کی حد تک محدود رکھیں گے یا واقعی انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ فوجی مشقیں، کمانڈ اسٹرکچر کی ہم آہنگی اور دفاعی پالیسی کا ادغام دیکھنے کو ملے گا؟ یہی وہ سوالات ہیں جو اس معاہدے کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرینگے۔اس معاہدے کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ محض عسکری نہیں بلکہ اقتصادی شراکت داری کو بھی بنیاد بناتا ہے ۔ سعودی عرب کی پاکستان میں 2.8 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری، مخر ادائیگی پر تیل کی سہولت اور دو طرفہ تجارتی حجم کو 20 بلین ڈالر تک لے جانے کی خواہش، ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک اب صرف مذہبی اور ثقافتی رشتوں پر نہیں بلکہ باہمی مفادات پر مبنی معاشی و تذویراتی بلاک کی بنیاد رکھ رہے ہیں ۔ معاہدے کے نتیجے میں خطے میں طاقت کا ایک نیا جغرافیائی توازن ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے پاس موجود جدید اسلحہ اور پاکستان کی عسکری مہارت، اگر ایک مربوط پالیسی کے تحت کام کریں، تو یہ شراکت داری خلیجی و جنوبی ایشیائی خطے میں ایک تیسری قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ تقریب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان اس معاہدے کو مکمل ادارہ جاتی حمایت حاصل ہے۔معاہدہ محض ایک سفارتی یا دفاعی پیشرفت نہیں بلکہ نظریاتی و تذویراتی فیصلہ ہے۔ اگر اسے سنجیدگی ادارہ جاتی ہم آہنگی اور دور اندیشی کے ساتھ نافذ کیا گیا تویہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں کیلئے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے بصورت دیگر یہ بھی ان اتحادوں کی طرح محض ایک "موقع پرستی” کی یادگار بن کر رہ جائیگا جنہوں نے وقتی شور تو مچایا، مگر تاریخ میں اپنا مقام نہ بنا سکے۔

