کالم

پاکستانی سیاست۔قومی اتحاد سے پی ڈی ایم تک !

1970 کی دہائی کا پاکستان سیاسی ہیجان اور عوامی جوش کا مرکز تھا، اکہتر کی جنگ لڑی گئی، مجیب الرحمان غدار قرا دے دیا گیا اور اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو عوامی نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ ان کے دور میں مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کو نئی امید ملی، مگر جلد ہی ان کی حکومت پر انتخابی دھاندلی، سیاسی انتقام اور شخصی حکمرانی کے الزامات لگنے لگے۔ اس کے بعد1977ء کے عام انتخابات میں حزبِ اختلاف کی شکست نے ان الزامات کو مزید ہوا دی، اور یہی وہ لمحہ تھا جب ایک نئے اتحاد نے جنم لیا اس اتحاد کو پاکستان قومی اتحاد کا نام دیا گیا۔پاکستان قومی اتحاد نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک غیر معمولی سیاسی بندوبست تھا۔ یہ جماعتیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف مگر مقصد میں ایک تھیں ، بھٹو حکومت کا خاتمہ۔ ان میں جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)، جماعتِ اسلامی (میاں طفیل محمد)، جمعیت علمائے پاکستان (شاہ احمد نورانی)، پاکستان مسلم لیگ (ملک قاسم)، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (غوث بخش بزنجو)، تحریکِ استقلال (ایئر مارشل اصغر خان)، حزبِ اسلامی (پروفیسر غفور احمد)، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (نظام الدین) اور کسان مزدور پارٹی (شیخ رشید احمد) شامل تھیں۔یہ اتحاد مذہبی و سیاسی قوتوں کا ایک عجیب امتزاج تھا۔ اسلام پسند، قوم پرست اور لبرل رہنما سب ایک ہی نعرے پر متحد ہوئے۔نظامِ مصطفی ۔ یہ نعرہ عوام کے دلوں میں مذہبی جوش بن کر اترا اور تحریک کی صورت میں پورے ملک میں پھیل گیا۔ جلسے، جلوس اور نعرے ایک نئے جذبے کے ساتھ ابھرے۔ مگر جیسے جیسے احتجاج بڑھتا گیا، تحریک مذہبی جوش سے نکل کر سیاسی تصادم میں بدلنے لگی۔بھٹو حکومت نے طاقت کے ذریعے احتجاج دبانے کی کوشش کی۔لاٹھیاں، گولیاں، گرفتاریاں اور خون خرابہ بڑھتا گیا۔ دونوں جانب ضد اور نفرت نے مکالمے کے دروازے بند کر دیے۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئے، مگر کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ یوں نعرہ نظامِ مصطفیٰ ایک سیاسی ہتھیار بن گیا، اور تحریک کا رخ جمہوریت سے آمریت کی جانب مڑ گیا۔ تحریک کے دوران قومی اتحاد کی قیادت کا ایک اہم اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوا، جہاں یہ عہد کیا گیا کہ اتحاد اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک نظامِ مصطفی نافذ نہیں ہو جاتا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ عہد بھی اقتدار کی چمک کے سامنے کمزور پڑ گیا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977ء کو مارشل لا نافذ کیا، تو یہی رہنما اس کے قریب جا بیٹھے۔نظامِ مصطفی کے نام پر چلنے والا قافلہ اقتدار کے دربار کی سمت مڑ گیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مارشل لا جنرل ضیاء نے لگایا ، مگر اس کی فضا قومی اتحاد نے خود بنائی۔ ملک میں بدامنی، مذہبی شدت اور سیاسی محاذ آرائی نے فوجی مداخلت کو ناگزیر بنا دیا۔ عوامی تحریک، جو جمہوریت کیلئے اٹھی تھی، آمریت کے جواز میں ڈھل گئی۔ ضیاء الحق نے اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا، مگر اس وعدے کے سائے میں سیاست، مذہب اور قانون سب کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لیا۔چار اپریل 1979ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو پاکستان دو انتہاؤں میں بٹ گیا۔ ایک طرف آنسو، غم اور احتجاج کا طوفان تھا، دوسری جانب حلوے کی دیگیں پکیں، مٹھائیاں بانٹی گئیں، اور اللہ اکبر کے نعرے لگے۔یہ منظر تاریخ کا المیہ بن گیا۔ سیاسی اختلاف مذہبی نفرت میں ڈھل چکا تھا۔ عوام کے ذہن میں یہ تاثر بٹھا دیا گیا کہ بھٹو کا انجام”اسلام کی فتح ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام نہیں، انتقام جیتا۔ اس دن سیاست سے برداشت، مکالمہ اور رواداری کا جنازہ نکلا۔ مارشل لا کے بعد وہی جماعتیں جو نظامِ مصطفیٰ کے نام پر متحد تھیں، اقتدار کی سیاست میں بکھر گئیں۔ کچھ رہنما ضیاء حکومت کا حصہ بنے، کچھ خاموش تماشائی رہے، اور کچھ دوبارہ جمہوریت کے نام پر نئے اتحاد بنانے لگے۔ یہی پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے ، اتحاد بنتے ہیں، نعرے بلند ہوتے ہیں، مگر منزل ہمیشہ اقتدار ہی رہتی ہے۔قومی اتحاد کے بعد 1981ء میں تحریکِ بحالی جمہوریت (MRD) بنی، پھر اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)، پھر پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ، آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ، اور آخر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)۔ ہر اتحاد نے عوام، نظام اور جمہوریت کے نام پر جنم لیا، مگر ہر بار انجام اقتدار کی بندربانٹ پر ہوا۔قومی اتحاد سے پی ڈی ایم تک کا سفر ایک ہی حقیقت بیان کرتا ہے کہ پاکستان میں سیاست اصولوں کے گرد نہیں بلکہ کرسی کے گرد گھومتی رہی۔ ”نظامِ مصطفی سے ”نظامِ مفاد” تک کا یہ سفر قوم کو تقسیم، کمزور اور مایوس کر گیا۔ اتحادوں کے نعرے بدلتے رہے مگر نتیجہ ہمیشہ ایک ہی رہا اقتدار حاصل کرنے والوں نے نظام نہیں بدلا، صرف چہرے بدلے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ دراصل اتحادوں کی شکست و ریخت کی تاریخ ہے۔ ہر دور میں اتحاد بنے مگر مقصد کبھی قومی وحدت نہ رہا۔جب تک سیاست اقتدار کے بجائے کردار کی بنیاد پر نہیں ہوگی، تب تک ہر اتحاد”قومی”کہلا کر بھی قوم کو مزید تقسیم کرتا رہے گا۔ یہی وہ سبق ہے جو تاریخ ہر بار دہراتی ہے، اور ابھی تک انائوں اور ذاتی مفاد کی جنگ جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے