کالم

پاکستانی ماؤں کو "امپاور” ہونا ہوگا!

پاکستانی ماؤں کو "امپاور" ہونا ہوگا!

خصوصی تحریر(کاشف شمیم صدیقی)
سندھ میں ماؤں اور بچوں کی صحت کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے،بالخصوص اندرونِ سندھ کے پسماندہ علاقے گزشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے کی لپیٹ میں ہیں، ان علاقوں میں موجود مائیں اور بچے صحت سے جڑے جن مسائل کا شکار نظر اآتے اآتے ہیں اُن میں مالنیوٹریشن(Malnutrition)سب سے اہم ہے۔ حاملہ مائیں اور اس دنیا میں آنکھیں کھولنے والے پھول جیسے نوزائیدہ معصوم بچوں کی ایک بڑی تعداد غذائیت کی کمی کا شکار نظر آتی ہے۔

پاکستان میں مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے سلسلے میں ہونے والے کاموں پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں خاص طور پر این جی اوز(NGOs)کی جانب سے کیے جانے والے کام نگاہوں کے سامنے آتے ہیں، پہلی اگست سے7 اگست تک منا یا جانے والا "ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ویک” بھی ایسے ہی کاموں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ ایک ہفتے کے اس دورانیے میں بچے کے لیے ماں کے دودھ کی اہمیت، افادیت اورمدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ جیسے اہم موضوع کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ماں کا دودھ ننھے، منے پھول جیسے بچوں کی پہلی مکمل اور بھرپورغذا ہے، مصنوعی دودھ کے رنگ برنگی ڈبے اسکا نعمل البدل ہر گز نہیں ہوسکتے، مدر فیڈ نوزائیدہ کے لیے بے انتہا ضروری ہے۔

ہمارے یہاں خواتین کو درپیش مسائل کی کڑیاں اگر آپس میں ملاِ دی جائیں تو ان کا لنک ماؤں اور بچوں کی صحت سے بھی جا ملتا ہے جس میں مدرفیڈ کا موضوع بھی شامل ہے۔ اس بات کو آپ اس طرح سے سمجھ لیجئے کہ ہمارے یہاں بہت بڑی تعداد میں پسماندہ اور غربت زدہ مائیں ایسی بھی ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلانا چاہتی ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں پاتیں، کریں بھی تو کیسے؟ دودھ پلانے کے لیے ماؤں کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ جو وہ ہیں نہیں، انہیں تو دو وقت کی روٹی ہی نصیب نہیں، نہ جسم میں خون ہے نہ گھر میں کھانے کو اچھی غذا، اورنہ ہی پینے کو صاف پانی، انہیں تو خود جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، بےچارگی کا شکارمائیں جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار ہیں، وہ زیادتیاں اور حق تلفیاں برداشت کر رہی ہیں اور انصاف ملنے کی منتظر ہیں، لیکن ناانصافی کی دُھند ایسی چھائی ہے کہ چھٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک طرف تو پسماندہ مائیں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا نظرآتی ہیں، تو دوسری جانب انہیں علاج ومعالجے کی بہتر سہولیات بھی میسر نہیں، ہمارے یہاں صحت کا شعبہ بدترین کرپشن کا شکار نظر آتا ہے۔

تیسری جانب ناقص غذائیں صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہیں، آٹا، گھی، تیل جیسی بنیادی روزمرہ استعمال کی اشیاء ملاوٹ شدہ اور ناقص پن کا شکار ہیں۔ سبزیاں گندے پانی سے اُگائی جا رہی ہیں، بکرے کا گوشت، پھل فروٹ، پستے، بادام اور دیگر خشک میوہ جات تو غریبوں کا خواب بن کر ہی رہ گئے ہیں۔

غریب اور پسماندہ مائیں اور کتنے مسائل سے دوچار ہیں اس پرایک پوری بھاری بھرکم کتاب لکھی جاسکتی ہے، لیکن مسائل کا حل نکالنے کے لیے بس اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ پسماندگی اور غربت کا شکار مائیں تب ہی اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے قابل ہو سکیں گی جب وہ "امپاور” ہوجائیں گی۔

غربت کے خاتمے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے، اچھی غذائیں، صاف پانی اور بہترصحت کی سہولتیں ہر شہری کا بنیادی حق ہیں، انصاف کی فراہمی نا انصافیوں کا خاتمہ کر دے گی، اور پھر جب خواتین کو اُنکے حقوق ملیں گے، ماؤں کو صحت مند ماحول اور خوشیاں نصیب ہوں گی تو نوزائیدہ بھی "شیرِمادر” سے محروم نہیں رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے