کالم

پاکستانی نژاد کاروباری شخصیات کی بے توقیری کیوں؟

امریکا، برطانیہ ، جرمنی ، اٹلی، سنگا پور ، ملائشیا یا دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کاروباری شخصیات کی اتنی قدر کرتے ہیں کہ ان لوگوں کا اگر ان کی حکومت کے ساتھ کوئی مسئلہ بن جائے تو حکومت مجبورا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے، انہیں Facilitateکیا جاتا ہے، ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے، جبکہ بدلے میں یہ لوگ اپنے ملک اور لوگوں کے ساتھ حد درجے تک مخلص ہوتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے پیسے انہی کے ملک میں رہیں، جس سے اس ملک کی اکانومی کو فائدہ ہو۔ مگر یہاں سب الٹ ہے، یہاں 99فیصد کاروباری شخصیات نے دوہری شہریت لے رکھی ہے، انہیں علم ہے کہ وہ نا تو یہاں پولیس کا مقابلہ کر سکتے ہیں، نا ایف آئی اے کا اور نا ہی نیب و دیگر اداروں کا۔ اسی لیے وہ بسا اوقات پاکستان میں اپنے کاروبار ہونے کے باوجود یہاں نہیں پائے جاتے۔ کیوں کہ انہیں علم ہے کہ وہ یہاں کسی نہ کسی مقدمے میں دھر لیے جائیں گے۔ اسی طرح کی ایک مثال سنگاپور مائننگ کمپنی مائن ہارٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ک کی ہے جس کے مالکان کے خلاف کراچی میں ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈیفنس فیز 8 میں کریک مرینہ کے نام سے ایک رہائشی منصوبے کے ذریعے لوگوں سے اربوں روپے بٹورے، بینک عملے کے ساتھ ملی بھگت کر کے جعلی اکاو نٹ کھولا اور تین ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کر کے پاکستان سے باہر بھیج دئیے۔ جبکہ دوسری جانب میڈیا اطلاعات کے مطابق ان کا کاروباری بیک گرانڈ بتاتا چلوں اور پھر آپ فیصلہ کیجئے گا کہ اتنی بڑی کاروباری شخصیت چند ارب روپے کی خاطر دو نمبری کیسے کر سکتی ہے ۔ ڈاکٹر شہزاد نسیم پاکستانی شہری ہیں، جو1973 میں جب لی کوآن یو نے سنگاپور کو دنیا کا بہترین ملک بنانا شروع کیا تو یہ لی کوآن یو سے متاثر ہو کر سنگاپور چلے گئے، آسٹریلیا کی مشہور کنسٹرکشن کمپنی مائین ہارٹ نے اس زمانے میں سنگاپور میں کام شروع کیا تھا، یہ اس میں ملازم ہو گئے محنتی انسان تھے، تیزی سے ترقی کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے کمپنی کے ایم ڈی بن گئے کمپنی نے انھیں 1985میں پورے ایشیا کا ڈائریکٹر بنا دیا۔ مائین ہارٹ درحقیقت دنیاکی ٹاپ ٹین ڈیزائننگ فرمز میں شمار ہوتی ہے، یہ ائیرپورٹس، میٹروز، پورٹس، ہائی ویز، پل، واٹر سپلائی اسکیمیں، سیوریج سسٹم اور دنیا کی بلند ترین عمارتیں بناتی ہے۔ انڈونیشیا کی بلند ترین عمارت (Thamrin)بنائی دوہا کا انٹرنیشنل ائیرپورٹ مسقط ائیرپورٹ چانگی ائیرپورٹ کا ٹرمینل ون اور دہلی اور ممبئی کے ائیرپورٹس سمیت بھارت کے 6 بڑے ہوائی اڈے بنائے سنگا پور کی تمام اہم عمارتیں بھی اسی کمپنی نے بنائی ہیں ۔ طویل جدوجہد کے بعد کمپنی شہزاد نسیم کی ملکیت میں آگئی اور انہوں نے 2012تک اس کمپنی کو مکمل خرید لیاتھا۔ بالآخر پاکستان کے خراب حالات دیکھ کر انہوں نے گرمجوشی دکھائی اور یہاں 300ملین ڈالرز کے تین بڑے پروجیکٹس شروع کر دیے، یہ تینوں پروجیکٹس کراچی میں تھے ، پھر کراچی میں چینیوں پر حملے ہونے لگے لہٰذا اس کمپنی کا چینی کنٹریکٹر اپنے ملازمین سمیت واپس چلا گیا یوں پہلے ہی ہلے میں ان کے ایک ارب روپے ڈوب گئے یہ ابھی اس جھٹکے سے نہیں سنبھلے تھے کہ ان کیخلاف مقدمات شروع ہو گئے، کبھی ایک شخص عدالت چلا جاتا اور کبھی دوسرا پولیس یا ایف آئی اے کو درخواست دے دیتا عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے ان کی بینک گارنٹیز ڈوب گئیں اس دوران نیب کا کیس بھی بن گیا اور یہ نیب کی پیشیاں بھی بھگتنے لگے ۔حکومت پاکستان نے اسی دوران انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا،یعنی انہیں پاکستان میں سیاستدانوں کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا تھا، جنہیں ایک طرف سے بہلایا پھسلایا جا رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف سے ان پر مقدمات قائم کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ حکومت ان سے ایک طرف پاکستان کا پہلا اسمارٹ سٹی بنوانا چاہتی تھی ان سے اسلام آباد کا ائیرپورٹ اور راوی ریور ڈویلپمنٹ کے ماسٹر پلان بنوا رہی تھی اور دوسری طرف ان کے اوپر مقدمات پر مقدمات بنتے چلے جا رہے تھے ،اس وقت مائین ہارٹ کمپنی کا سی ای اوکراچی نہیں آسکتا کیوں کہ اس کیخلاف مقدمے بن چکے ہیں اور وہ پولیس اور ایف آئی اے کو مطلوب تھا۔ دنیا بھر میں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ایسے کاروباری حضرات کے ساتھ حکومتیں مکمل تعاون کرتی ہیں، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ان کی کمپنی سے پاکستان میں غلطیاں نہ ہوئی ہوں گی، لیکن حکومت اور ادارے اگر مخلص ہوں تو کمپنی اور متاثرین کو ایک ساتھ بٹھا کر Patchup کروایا جاتا ہے، حکومت کاروباری شخصیت کی عزت کا خیال بھی رکھتی ہے اور اس کا بیک گراو¿نڈ بھی دیکھتی ہے ۔ پھر اسی طرح محمود نامی پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت بھی اسی طرح کے سلوک کے بعد ملک چھوڑ کر چلی گئی، اور پھر ایوارڈ یافتہ معروف فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کسے یاد نہیں ہیں، جنہوں نے چند سال قبل کہا تھا کہ انسانیت کی خدمت اب چھوڑ دی ہے، دسمبر سے ان کی تمام فلاحی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی۔یہ وہی شخصیت ہیں جو نیشنل ہسپتال ڈیفنس لاہور کے مالک ہیں، جن کی تذلیل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی کی تھی، چند ماہ قبل انہوں نے ہیلے کالج آف کامرس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ فلاح وبہبود کی سرگرمیوں کے بدلے میں ان پر مقدمات درج کرائے گئے اور وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ غریبوں کےلئے سرگرم اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا جاتاہے، یتیم خانے کی زمین پر ایک وکیل قابض ہوگیا، جس کیخلاف کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور الٹا ان پرکیس کر دیے گئے اور انہوں نے احتجاجا ستارہ امتیاز بھی واپس کردیا۔ حکومت کو خود سوچنا چاہیے کہ اگر اس نے کسی کو ستارہ امتیاز دیا ہے ، یقینا وہ اس ملک میں امتیاز حیثیت رکھتا ہے، ورنہ وہ اسے کیوں ایسا اعزاز دے گی ، یا پھر ستارہ امتیاز کےلئے منتخب ہونے والی شخصیات کا کوئی لائحہ عمل نہیں ، مطلب اگر فراڈیوں کو یہ نشان مل رہا ہے تو پھر حکومت کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن اگر کسی کو دے دیا اعزاز تو حکومت اس کا احترام کرنا بھی سیکھے ۔ کیا متاثرہ کاروباری جیسی شخصیات اپنا پاکستان میں کاروبار کا تجربہ دوست احباب سے شیئر نہیں کریں گے؟ اور لوگوں کو نہیں بتائیں گے کہ یہاں کس طرح سے لوگوں کی تحقیر کی جاتی ہے۔ بہرکیف حکومت نے ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے کےلئے 20جون کو اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل بنائی ہے اس کا مقصد دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کرنا ہے کونسل میں سول اور ملٹری دونوں قسم کے اہلکار موجود ہیں اور بظاہر حکومت اور فوج دونوں فریق اس بار سیریس دکھائی دیتے ہیں ہمیں یہ قدم بہت پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا بہرحال دیر آید درست آیدتاہم میری کونسل سے درخواست ہے سرمایہ کاری کے کھیل میں مقامی سرمایہ کار اور اوورسیز سرمایہ کار سب سے اہم ہوتے ہیں باقی دنیا ان کے بعد ملکوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔لیکن یہاں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے