روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچ کچھ سحر کے رنگ پرافشاں ہوئے تو ہیں
غیر جانبدار مبصرین نے اس امر کو انتہائی حوصلہ افزا قرار دیا ہے کہ مرکز اور تمام صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور مملکت کے سربراہ کے طور پر آصف علی زرداری 14ویں صدر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہےں ۔سنجیدہ حلقوں نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ ملک کے 14ویں صدر مملکت کے انتخاب کے ساتھ ہی پارلیمانی جمہوری نظام کے تسلسل کی بنیاد مضبوط ہو گئی ہے۔ اب اگلا مرحلہ سسٹم پر عوام کا اعتماد مستحکم بنانے کا ہے جس کیلئے قومی‘ سیاسی‘ دینی‘ عسکری قیادتوں اور ادارہ جاتی سطح پر جس یگانگت اور قومی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے اس کیلئے بھی فضا سازگار ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس حوالے سے اگر وزیراعظم شہبازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کے گزشتہ روز کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سسٹم کے استحکام اور ملک و قوم کے روشن مستقبل کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہو رہے ہیں۔یاد رہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے مظفرآباد میں بارش کے متاثرین کو امدادی چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفت انسان کے بس سے باہر ہے‘ یہ اللہ کا نظام ہے جس کے آگے سر جھکانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جب تک متاثرین گھروں میں آباد نہیں ہو جاتے‘ ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ہمیں کڑوے فیصلے کرنے ہیں جو اشرافیہ کیلئے ہونگے۔ ہم نے دن رات محنت کرکے قوم کو یکسو کرنا ہے‘ نفرتوں کے بجائے محبتوں کے پھول نچھاور کرنے ہیں ۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ذاتی پسند ناپسند کو چھوڑ کر پاکستان کے مفاد کی خاطر اکٹھے ہونا ہوگا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ سالوں میں پاکستان کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہوگا اور ذاتیات سے بالاتر ہو کر نفرتیں مٹانا ہونگی۔ وزیراعظم کے بقول ٹیکس چور مافیا پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس کا فائدہ عام آدمی کو ہو گا‘ آج پاکستان کیلئے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے آواران کے دورے کے موقع پر شہدائکے اہل خانہ اور کسانوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ عوام کے ساتھ مل کر امن و خوشحالی کا سفر جاری رکھیں گے۔بلوچستان کی کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے۔ عسکری ترجمان کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان کے ضلع آواران کا دورہ کیا۔ آرمی چیف نے اس موقع پر عمائدین اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے زراعت کی اہمیت اور گرین پاکستان انٹیشیٹو کیلئے فوج کے عزم پر زور دیا۔ انکے بقول زراعت ملکی ترقی میں اہمیت رکھتی ہے اورپاک فوج گرین پاکستان انیشیٹو میں تعاون جاری رکھے گی۔ انہوں نے اسی ضمن میں کہا کہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کے ساتھ مل کر امن و خوشحالی کا سفر آگے بڑھائیں گے۔ مبصرین کے مطابق بلاشبہ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ 2008 کے انتخابات سے ملک میں آئین کے مطابق پارلیمانی جمہوری نظام کے احیاءکیلئے جس سفر کا آغاز ہوا تھا وہ سسٹم کیخلاف ملک کے بدخواہوں کی سازشوں کے باوجود نہ صرف جاری ہے بلکہ اب سسٹم کے استحکام کے بھی قوی آثار نظر آرہے ہیں۔ قومی ریاستی انتظامی ادارے بشمول پارلیمنٹ‘ حکومت‘ عدلیہ، افواج پاکستان آئین میں متعین اپنے اختیارات اور حدود وقیود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کریں تو سسٹم میں کسی بھی جانب سے کسی قسم کی مداخلت کی نوبت آئے نہ ماضی کی طرح اسے پٹری سے ہٹانے کا کوئی ماحول پیدا ہو۔ ماہرین کے بقول ماضی میں اگر ماورائے آئین اقدامات کے تحت سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی نوبت آئی تو اس میں بھی اپنے مفادات کے ساتھ بندھے ہوئے ہمارے فہم و بصیرت سے عاری سیاستدانوں کا ہی عمل دخل تھا جو محض اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے معاون بنتے رہے اور ہماری عدلیہ بھی نظریہ ضرورت کو ایجاد کرکے ماورائے آئین اقدامات کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔ چنانچہ سسٹم میں محلاتی سازشوں کے عمل دخل کا راستہ بھی کھلا جس میں ذاتی مفادات کے اسیر سیاستدان باہم دست و گریباں ہو کر محاذآرائی اور منافرت کی فضا گرماتے تو اس کا ملبہ سسٹم پر ہی آن گرتا۔ چنانچہ عوام کیلئے بھی سلطانی جمہور سے براہ راست مستفید ہونے کی کوئی گنجائش نہ نکل پائی۔ اسی گھمبیر فضا میں قومی سیاسی قیادتوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا چنانچہ 2005 میں اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر بے نظیر بھٹو‘ نوازشریف اور اے آر ڈی کی دوسری جماعتوں کی قیادتوں نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ کسی ماورائے آئین اقدام کے تحت اپنی مخالف حکومت کو گرانے کیلئے کوئی سیاست دان اپنا کندھا فراہم نہیں کریگا۔ اس معاملہ پر تو یقیناً بحث مباحثہ جاری رہے گا کہ میثاق جمہوریت کرنیوالوں نے اپنے اپنے ادوار میں اس قومی مفاہمتی معاہدے کی خود کس حد تک پابندی و پاسداری کی ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ 2008ءسے اب تک پارلیمانی جمہوری نظام کا تسلسل میثاق جمہوریت کی بنیاد پر ہی قائم ہوا ہے جس میں ملک کی عسکری قیادتوں کے مثبت اور تعمیری کردار کو بھی یقیناً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ آنےوالے دنوں میں سبھی طبقات اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ملک کے معاشی اور سیاسی استحکام کی جانب قدم بڑھائیں گے اور قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔
کالم
پاکستان استحکام کی راہ پر گامزن ۔انتخابی عمل مکمل
- by web desk
- مارچ 11, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 542 Views
- 1 سال ago