کالم

پاکستان تارےخ کے آئےنہ مےں

برصغےر کا علاقہ جو آج پاکستان اور ہندوستان پر مشتمل ہے6 7برس پہلے تک اےک ہی ملک تھا ۔600سال قبل مسےح اس علاقے مےں اےک قوم دراوڑ کہلاتی تھی وسط اےشےاءسے آرئن نامی قوم اس علاقے مےں وارد ہوئی اور مقامی لوگوں پر برتری حاصل کر لی 557قبل مسےح سدھارتھ نامی شخص نےپال مےں پےدا ہوا جس نے بدھ مت کی بنےاد رکھی سکندر اعظم شمال مغربی سمت سے 326قبل مسےح کو برصغےر مےں وارد ہوا اور راجہ پورس کو شکست دے کر مشرق کی طرف سے پنجاب مےں داخل ہوا ۔فوج کی کمی کے سبب مزےد پےش قدمی جاری نہ رکھ سکا اور فوج کو ازسر نو منظم کرنے کی غرض سے واپس پلٹ گےا اور ہندوستان پر حکومت کی آرزوئے ناتمام کے ساتھ اس جہان فانی سے کوچ کر گےا پانچوےں اور چھٹی صدی عےسوی مےں بےرونی حملہ آوروں کے ساتھ راجپوت بر صغےر مےں آئے اور 750ءتک برصغےر پر چھائے رہے ۔610ءمےں عرب کے صحراﺅں مےں اسلام کی روشنی کا ظہور ہوا ۔711ءکے آخر مےں راجہ داہر کے غنڈوں نے مسلمانوں کے اےک قافلے کو لوٹ لےا اورخواتےن کی بے حرمتی کی حجاج بن ےوسف نے مسلمانوں کو انصاف دلانے اور بحری قذاقوں کی سر کوبی کےلئے محمد بن قاسم کو دےبل بھےجا ۔محمد بن قاسم نے ملتان تک کا علاقہ فتح کر لےا اور اس خطے مےں اسلامی مملکت کی بنےا د ڈالی سلطان محمود غزنوی افغانستان سے برصغےر مےں داخل ہوا محمود غزنوی نے افغانستان سے برصغےر پر سترہ حملے کئے اور سومنات کا شہرت ےافتہ قصہ پےش آےا ۔1191مےں افغانستان سے سلطان محمود غزنوی نے بر صغےر پر فوج کشی کی اور دہلی کے تحت پر براجمان ہوا اس کا غلام قطب الدےن اس کی وفات کے بعد برصغےر کا حکمران بنا اور1206مےں برصغےر مےں پہلی باقاعدہ حکومت تشکےل دی برصغےر کی ہندوستان کی تارےخ مےں مسلمانوں پر بڑے مشکل دور آئے مسلمانوں کے زوال کا دور اورنگ زےب کے انتقال سے شروع ہوتا ہے بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے برصغےر پر تقرےباً سات سو برس تک حکومت کی اور ان کے تقرےباً کل 76 بادشاہ ہوئے مسلمان فرمانرواﺅں کی مضبوط حکومتوں کے باعث مسلمان اقلےت کو عدم تحفظ کا احساس نہےں ہوا لےکن 1707ءمےں اورنگزےب کے انتقال کے بعد اٹھاروےں اور انےسوےں صدی کا دور مسلمانوں کےلئے بڑا کٹھن اور کڑی آزمائش کا دور تھا اورنگ زےب کے انتقال کے بعد اےک طرف مرہٹے اور جاٹ مسلمانوں کے وجود کے درپے تھے تو دوسری طرف انگرےز سازشوں اور جوڑ توڑ کا جال بچھا کر برصغےر پر اپنی اجارہ داری کےلئے کوشاں تھا ۔1715ءتک انگرےز ولےم فورٹ نامی قلعہ کلکتہ مےں قائم کر چکے تھے اور ان کی گورا پلٹن ان کی عسکری قوت کا مظہر بن چکی تھی 1757ءکی جنگ پلاسی مےں مےر جعفر کی غداری کے سبب سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور انگرےز ہندوستان مےں اےک سےاسی اور عسکری قوت بن کر ابھرے سراج الدولہ کی شکست کے بعد مسلمانوں کے حوصلے پست ہوئے ۔ مسلمانوں کےلئے سب سے بڑا صدمہ 1764ءمےں بکسر کی جنگ مےں مغل بادشاہ عالم اور مےر قاسم کی مشترکہ فوج کی انگرےزوں کے ہاتھوں شکست تھی اس سے دہلی ان کے آگے سر نگوں ہو چکی تھی اور مغل حکومت صرف لال قلعہ تک محدود تھی مےسور کی رےاست مےں سلطان فتح علی ٹےپو اب مسلمانوں کےلئے امےد کی کرن تھا لےکن ان کی غداری اور سازشوں سے مےسور کی چوتھی جنگ مےں جو1799ءمےں لڑی گئی ٹےپو سلطان کو شکست ہوئی اور وہ ان تارےخی کلمات کے ساتھ کہ شےر کی اےک دن کی زندگی گےدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوا ۔بےسوےں صدی مےں مرہٹے اور دوسری قوتےں جب مسلمانوں کےلئے خطرہ بنےں تو مسلمانوں کی سےاسی و سماجی قےادت علماءنے سنبھالی شاہ ولی اﷲ کے جانشےن شاہ عبدالعزےز نے ہندوستان کو دارلحرب قرار دےاان سے متاثر ہو کر سےد احمد شہےد نے 1783ءتا1786ءجہاد کی تحرےک شروع کی جس کا مقصد پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے پنجہ استبداد سے نجات دلانا تھا ےہاں بھی مسلمانوں مےں دےرےنہ عناصر نے کام دکھاےا اور رنجےت سنگھ نے رشوت کے ذرےعہ کئی افغان سرداروں کو رشوت دے کر اپنے ساتھ ملا لےا چنانچہ1831ءمےں بالا کوٹ کے مقام پر مجاہدےن کو شکست ہوئی اور سےد احمد برےلوی اور شاہ اسماعےل شہادت پا گئے ۔اس طرح ےہ تحرےک بھی دم توڑ گئی ۔1843ءمےں انگرےزوں نے سندھ پر قبضہ کر لےا اور مارچ 1849ءکے بعد پنجاب مےں بھی بلاشرکت غےرے حکمران بن گئے 1856ءمےں انگرےزوں نے اودھ کے حکمران مےر واجد علی سے اےک معاہدہ پر دستخط کرواکر اودھ پر قبضہ کر لےا اور مےر واجد علی کو کلکتہ مےں نظر بند کر دےا انےسوےں صدی کے نصف تک انگرےز ہندوستان کے کافی حصہ پر قابض ہو چکے تھے ۔ مسلمانوں کی عسکری قوت پارہ پارہ ہو چکی تھی ۔مسلمان رےاستوں کے انگرےزوں کے سامنے سرنگوں ہونے کے باوجود ان مےں جذبہ حرےت کی تڑپ اور آزادی کی آرزو ہنوز زندہ تھی اسی مقصد کے تحت انےسوےں صدی کے آغاز سے لےکر وسط تک انگرےزی تسلط کےخلاف 24ناکام بغاوتےں ہوئےں ہندوستانےوں کی جانب سے انگرےزوں کے طوق غلامی سے نجات کےلئے آخری غےر منظم کوشش 1857ءکی جنگ آزادی تھی جسے انگرےزوں نے بغاوت سے تعبےر کےا ےہ آزادی کی جنگ جہاں ہندوستان پر انگرےزوں کے مکمل تسلط کا باعث بنی وہاں مسلمانوں کےلئے تارےخ مےں ظلم و ستم کی اےک طوےل داستان رقم کرنے کا سبب بھی بنی مسلمانوں کو لاکھوں کی تعداد مےں پھانسےاں دی گئےں توپوں اور بندوقوں کے دہانے مسلمانوں کی طرف بے درےغ کھول دےے گئے کوئی اےسا ظلم نہ تھا جو مسلمانوں سے روا نہےں رکھا گےا مسلمانوں کےلئے اس تارےک اور مشکل دور مےں اےک اےسی شخصےت جو مسلمانوں کےلئے اےک مسےحا کے روپ مےں سامنے آئی ،جس نے تدبرو فراست سے اپنی سرکاری ملازمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی ڈوبتی ناﺅ کو سہارا دےا ،عزم و ہمت کے اس پہاڑ کا نام سرسےد احمد خان تھا وہی ہندوستان مےں مسلمانوں کی نشاة ثانےہ کا نقےب تھا کون نہےں جانتا کہ حصول پاکستان اور اس کے بعد پاکستان کے اولےن دور مےں پاکستان کے استحکام کےلئے ان سر فروشوں کی مساعی کا کتنا ہاتھ ہے جو علی گڑھ سے فارغ التحصےل ہوئے تھے ےہی وجہ ہے کہ چونکہ ہندوستان سے انگرےزوں کو بزور طاقت نکالنا ممکن نہےں تھا اس لےے تقاضائے وقت کے تحت مسلمانوں کی قےادت ان کی رواےتی لےڈر شپ کے ہاتھوں سے نکل کر مغربی تعلےم ےافتہ نوجوانوں کی طرف منتقل ہو گئی سرسےد احمد خان کی مساعی جمےلہ کا تسلسل ہمےں علامہ اقبال کے ہاں ملتا ہے جو ان کی زبان سے آل انڈےا مسلم لےگ کے سالانہ اجلاس 1930ءالہٰ آباد مےں مسلمانوں کی منزل کی نشاندہی کے طور پر ےوں ادا ہوا کہ” مےری خواہش ہے کہ پنجاب، سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر اےک رےاست واحدہ قائم کی جائے “۔ےہ اےک آزاد خود مختار رےاست کا اولےن خاکہ تھا جب مسلمانوں کی سےاسی جدوجہد نے اےک متعےن رخ اختےار کر لےا تو حضرت علامہ اقبال نے ہی اس ملی جنگ کےلئے قائد اعظم محمد علی جناح ؒجےسے دےدہ ور کا انتخاب کےا ۔قائد اعظمؒ نے اپنے سےاسی کےرئےر کا آغاز آل انڈےا کانگرےس کے پلےٹ فارم سے کےا اور ہندو مسلم اتحاد کےلئے کوشاں رہے لےکن طوےل عرصہ تک ہندوﺅں کی رفاقت مےں رہنے سے ان کو معلوم ہو گےا کہ کانگرےس فقط ہندوﺅں کی ہی نمائندہ جماعت ہے اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ اس کے مقاصد مےں نہےں ۔1935ءکا ا نڈےن نےشنل اےکٹ ہندوﺅں اور انگرےزوں کی مشترکہ چال ثابت ہوااسی اےکٹ کے تحت 1936ءمےں الےکشن ہوئے 1937ءمےں کانگرےسی وزارتےں بنےں جس مےں ہندوﺅں کی مسلمان دشمنی زےادہ واضع شکل مےں سامنے آئی مسلمان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامات مقدسہ کی توہےن ،تعلےمی اداروں مےں ہندی ترانہ بندے ماترم کا اجراءاور مسلمانوں پر ملازمتوں کی پابندےاں جےسے مسلمان دشمن کام کےے گئے اس دور مےں دوسری جنگ عظےم کا بگل بج چکا اٹھا1939ءمےں ےوم نجات مناےا گےا مارچ 1940ءبروز جمعةالبارک قائد اعظم نے لاہور مےں اےک تارےخ ساز جلسے سے خطاب کےا اور دو قومی نظرےے کو واضع الفاظ مےں پےش کےا اور اعلان کےا کہ ہند اور مسلمان دو الگ الگ قومےں ہےں ہم مذہب،ثقافت ،تعلےم ،طرز زندگی اور زبان کے حوالے سے ہندوﺅں کے ساتھ نہےں رہ سکتے لہذا بر صغےر پاک و ہند کو دو آزاد مملکتوں مےں تقسےم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اگلے ہی روز 23مارچ 1940بروز ہفتہ قرارداد پاکستان منظور ہوئی شےر بنگال مولوی فضل الحق نے ےہ قرار داد پےش کی اور چوہدری خلےق الزماں نے اس کی تائےد کی مسلمانوں کو اےک نشان منزل مل گےا ۔حضرت قائد اعظمؒ کی قےادت مےں حصول وطن کےلئے تارےخ ساز تحرےک کا آغاز ہوا جس کے نتےجہ مےں برٹش پارلےمنٹ نے تےن جون 1947ءکو تقسےم ہند کا اعلان کر دےا اور بلآخر 14اگست 1947ءکو پاکستان معرض وجود مےں آگےا حضرت علامہ اقبالؒ کا خواب اےک حقےقت بننے مےں قائد اعظم کی سےاسی بصےرت اور حکمت عملی کا بڑا حصہ تھا 14اگست 1947ءکی صبح ہمےں حےات ملی کہ وہ درخشدہ روشن صبح ہے جس نے اےک نئی آزاد مملکت کو دنےا کے نقشے پر ابھرتے ہوئے دےکھا قےام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی ہندوﺅں نے مسلمانوں پر ظلم وبربرےت کا بازار گرم کر دےا معصوم عصمتوں کی پامالےاں کی گئےں مکانوں کو آگ لگا دی گئی مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹا گےا اور دس لاکھ مسلمانوں کی قربانی کے بعد ےہ مملکت خداداد ہمارے حصہ مےں آئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے