پاکستان ریلوے ملک بھر کے لوگوں کو آمد و رفت کی سہولیات فراہم کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ یہ ادارہ ہمیں قیامِ پاکستان کے وقت ورثے میں ملا۔ اس وقت اسے پاکستان ویسٹرن ریلوے کہا جاتا تھا۔ تاہم، تاریخ کے تلخ باب کے مطابق، بھارتی حکمرانوں کی سرپرستی میں کی جانے والی جارحیت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا، جو بعد ازاں بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک کے طور پر ابھرا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کے حکمرانوں نے بھارتی اثر و رسوخ میں رہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات کو فروغ دیا۔پاکستان کی جانب سے اس وقت کے وزیرِ اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے خلوصِ نیت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے نہ صرف بنگلہ دیش کو تسلیم کیا بلکہ لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں بنگلہ دیش کے وزیرِ اعظم شیخ مجیب الرحمن کو شرکت کی دعوت دی۔پی آئی اے کا خصوصی طیارہ ڈھاکہ سے شیخ مجیب الرحمن کو لاہور لایا، جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں خوش آمدید کہا اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات ماضی کی طرح خوشگوار بنیادوں پر استوار ہو سکیں۔ تاہم، بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی اس ممکنہ قربت سے خوفزدہ ہو گئیں اور اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم شیخ مجیب الرحمن کو راستے سے ہٹا دیا۔ اور ان کی جگہ ان کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد کو اقتدار میں لایا گیا۔ وقت نے ایک اور کروٹ لی، اور آج ایک طویل مدت کے بعد بنگلہ دیشی عوام نے حسینہ واجد کے اقتدار کا خاتمہ کر کے ایک پروفیسر کو عبوری وزیرِ اعظم کے طور پر منتخب کیا ہے، جنہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبلِ قریب میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک بار پھر برادرانہ تعلقات قائم ہو جائیں گے۔
ہم دراصل پاکستان ریلوے کا ذکر کر رہے تھے، مگر تاریخ کے تذکرے میں وطنِ عزیز کی سیاسی کہانی بھی ساتھ آ گئی۔جہاں تک پاکستان ریلوے کا تعلق ہے، یہ ادارہ ہمیں قدرتی طور پر ورثے میں ملا۔ اگر آج ہمیں نیا ادارہ ازسرِنو قائم کرنا پڑے تو قوم بخوبی جانتی ہے کہ ہمارے طریقِ کار کیا ہیں اور ہم کن حالات میں رہتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں یہی پاکستانی ذہانت ہے جس نے دنیا بھر کے ترقیاتی منصوبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ مرحوم شیخ زید بن سلطان النہیان اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:ابوظہبی کی تعمیر و ترقی پاکستانیوں کی مرہونِ منت ہے۔ مجھے ہر وقت ابوظہبی کی فضا میں پاکستانیت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔وہ اپنی زندگی میں ہر رات ابوظہبی کا دورہ کرتے، پاکستانی مزدوروں کو کام کرتے دیکھ کر رک جاتے، انہیں اپنے گلے سے لگاتے اور انعام سے نوازتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر پورے عرب امارات، بالخصوص ابوظہبی میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
ہماری گفتگو ایک بار پھر پاکستان ریلوے کی جانب لوٹتی ہے۔ہمارے ہم وطنوں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر بیرونِ ممالک دکھا کر غیر ملکی ترقی میں کردار ادا کیا، لیکن افسوس کہ وہی محنت اپنے وطن میں دکھانے سے قاصر رہے۔اگر وہی جذبہ پاکستان میں استعمال کیا جاتا تو آج نہ ہماری صنعتیں بند ہوتیں، نہ ہم ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے رہتے۔ مگر افسوس کہ حالات اور حکمرانوں کی بے حسی نے انہیں ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا۔ آج بھی وہی صورتِ حال برقرار ہے اور لاکھوں پاکستانی روزگار کی تلاش میں وطن چھوڑ رہے ہیں، جو یقینا قومی معیشت کے لیے خطرناک امر ہے۔جہاں تک ریلوے کا تعلق ہے، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ریلوے کا قومی نیٹ ورک ہمیں ورثے میں ملا، لیکن گزشتہ 78 برسوں میں ہم اس میں کسی قابلِ ذکر اضافے کے بجائے اس کی خوبصورتی کو بگاڑنے میں سرگرم رہے۔ملک بھر میں آج بھی وہی ایک پٹری موجود ہے جو ہمیں 1947 میں ملی تھی۔پرانے بھاپ کے طاقتور انجن ختم ہو گئے، موجودہ انجن جدید ضرور ہیں مگر ان کی کارکردگی محدود ہے۔ ایک انجن لاہور سے کراچی تک نہیں پہنچ سکتا، اسے راستے میں خانیوال یا سکھر پر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔بوگیاں فرسٹ کلاس کے سوا ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔اگرچہ حالیہ برسوں میں چینی بوگیاں ضرور ملی ہیں، مگر ریلوے ورکشاپس میں نئی بوگیوں کی تیاری یا مرمت کا معیار نہایت پست ہے۔ریلوے حکام کو قوم کے سامنے وضاحت کرنی چاہیے کہ 78 برس میں انہوں نے کونسا تاریخی کارنامہ انجام دیا، کتنے نئے اسٹیشن بنائے، یا نئی پٹریاں بچھائیں؟
اگر ریلوے کے ملازمین اور افسران نے اپنی ترقی اور مراعات میں اضافہ کیا ہے، تو پھر ادارہ خود کیوں زوال پذیر ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ریلوے کے افسران عالیشان بنگلوں میں رہتے ہیں، گھروں میں ریلوے کے ملازمین کام کرتے ہیں، اور سرکاری گاڑیاں ان کی ذاتی سہولت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔جب کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو معمول کے مطابق اعلی سطحی انکوائری کمیٹی بنا دی جاتی ہے، چند روز شور شرابہ ہوتا ہے، پھر سب کچھ حسبِ معمول چلنے لگتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک خود مختار اتھارٹی قائم کرے اور ریلوے کے نظم و نسق کو نجی شعبے کے حوالے کرے تاکہ عملی کارکردگی ممکن ہو۔اگر ریلوے حکام اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے تو آج ہمارا ٹریک 78 برس پرانا نہ ہوتا بلکہ کم از کم چارگنا بڑھ چکا ہوتا۔افسوس کہ ترجیح ادارے کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی دولت کے انبار لگانا ہے۔ ملک کے ریلوے ادارے کی زمین پر کھربوں روپے کی تجاوزات قائم ہیں۔ ان قابضین میں سے بیشتر بااثر کاروباری اور سیاسی شخصیات ہیں۔ایوانوں میں بل منظور کر لیے جاتے ہیں مگر سرکاری زمین واگزار نہیں کروائی جاتی۔میں وزیراعظم شہباز شریف سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ریلوے کی زمینوں کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرائیں، قابضین کو سزا دیں، اور حاصل ہونے والی زمین کو قومی ترقی کیلئے استعمال کریں۔اگر ایسا ہو جائے تو ریلوے کے ٹریک کی تعداد چار گنا بڑھائی جا سکتی ہے، اور آئندہ سو برس تک پٹری کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔میری تجویز ہے کہ کراچی سے خیبر تک ریلوے لائن کے دونوں اطراف پھل اور پھولوں کے باغات لگائے جائیں۔ان کی پیداوار جلد حاصل ہوتی ہے اور عالمی منڈی خصوصا مشرقِ وسطی میں اس کی زبردست مانگ ہے۔
کالم
پاکستان ریلوے، قومی سوچ اور قومی ذمہ داری
- by web desk
- نومبر 14, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 8 Views
- 2 گھنٹے ago

