کالم

پاکستان :شاعر مشرق کے فلسفے اور نظریات ہی ثمر

شاعر مشرق نے بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے، اسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔آپ نے پاکستان کا خواب دیکھا تھاجسے شرمندہ تعبیر قائد اعظم نے کیا۔ اقبال کے فلسفے اور نظریات کا ہی ثمر تھا کہ ہمیں آزاد وطن نصیب ہوا، آپ نے امت مسلمہ کے لئے بے تحاشا خدمات انجام دیں۔بلاشبہ آپ کی شاعری لازوال ہے۔آج بھی دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں جو عقیدتوں اور محبتوں کے پھول ان پر نچھاور کرتے ہیں۔ ہر سال 9 نومبر کو قوم اپنے عظیم رہنما، مفکر اور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کو عقیدت و احترام کے ساتھ یاد کرتی ہے۔ یہ دن صرف عظیم فلسفی کی پیدائش کا نہیں بلکہ ایک ایسی سوچ کی یاد دہانی ہے جس نے غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانوں کے دلوں میں حریت، خودی اور ایمان کی روشنی پیدا کی۔ اقبال نے اپنی فکر اور قلم کے ذریعے اس قوم میں بیداری پیدا کی جو صدیوں سے زوال اور غلامی کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ ان کی سوچ اور فلسفہ نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی سمت دی بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے فکری انقلاب کا پیغام دیا۔
اقبال کی زندگی کا مقصد صرف شاعری یا ادب تک محدود نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے مفکر تھے جنہوں نے علم، دین، سیاست اور فلسفے کے میدانوں میں گہرے اثرات چھوڑے۔ انہوں نے مغربی فلسفے کو سمجھا، اس کی خامیوں کا جائزہ لیا اور مشرقی روحانیت کے ساتھ ایک نئے فکری نظام کی بنیاد رکھی۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلمان جب تک اپنے اندر کی طاقت کو نہیں پہچانتا، وہ دنیا میں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ قوموں کی عظمت کو ان کے ایمان، کردار اور خودی سے منسلک سمجھتے تھے۔ اقبال کے نزدیک غلامی صرف جسمانی قید نہیں بلکہ ذہنی غلامی کا دوسرا نام ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی سوچ، عقیدہ اور شناخت میں خود مختار بنیں تاکہ وہ دنیا میں قیادت کا حق ادا کر سکیں۔ اقبال کے زمانے میں برصغیر کے مسلمان سیاسی طور پر مغلوب، معاشی طور پر پسماندہ اور فکری طور پر منتشر تھے۔
انگریز سامراج کی گرفت مضبوط تھی اور مسلمان اپنی عظیم تاریخ کو بھول چکے تھے۔ ایسے ماحول میں اقبال نے اپنے قلم کے ذریعے ایک انقلاب برپا کیا۔ انہوں نے مایوسی کے اندھیروں میں امید کی شمع جلائی اور بتایا کہ اگر مسلمان اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں تو وہ دوبارہ عروج حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی فکر کا مرکزی نکتہ ایمان، عمل اور خودی تھا۔ اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب انسان کے اندر پوشیدہ اس قوت کو پہچاننا تھا جو اسے دنیا میں اپنا مقام بنانے کے قابل بناتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایک مومن اپنے کردار، علم، اور عمل سے تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔1930میں الہ آباد کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں جن کی تہذیب، مذہب اور سماجی نظام ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت ہے۔ یہ تصور بعد میں پاکستان کی بنیاد بنا۔ اقبال کے اس خواب کو قائداعظم محمد علی جناح نے عملی جامہ پہنایا اور 1947 میں وہ وطن وجود میں آیا جس کی فکری بنیاد اقبال نے رکھی تھی۔ اس لیے اقبال کو بجا طور پر "مفکرِ پاکستان” کہا جاتا ہے۔ اقبال صرف ایک سیاسی مفکر نہیں تھے بلکہ انہوں نے دینِ اسلام کو انسانی زندگی کے تمام پہلوں میں رہنمائی کا سرچشمہ قرار دیا۔
وہ سمجھتے تھے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو فرد، معاشرہ اور ریاست تینوں کو منظم کرتا ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان صرف عبادت گزار نہیں بلکہ دنیا میں عدل، علم اور اخلاق کے قیام کا ذمہ دار ہے۔ وہ قرآنِ حکیم کو انسانیت کی نجات کا راستہ سمجھتے تھے اور بار بار اس بات پر زور دیتے تھے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کی اصل وجہ قرآن سے دوری ہے۔ اقبال جدید تعلیم کے حامی تھے مگر اس شرط کے ساتھ کہ علم روحانیت اور اخلاق سے خالی نہ ہو۔ ان کے نزدیک مغرب کی ترقی سائنسی لحاظ سے قابلِ تعریف تھی مگر اخلاقی زوال نے اسے باطن سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مشرق، مغرب کے علم سے فائدہ اٹھائے مگر اپنی روحانی اساس کو برقرار رکھے۔ اقبال کے نزدیک قوموں کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ نوجوانوں کو ملت کا سرمایہ اور مستقبل کی امید سمجھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر نوجوان اپنی خودی کو پہچان لیں، ایمان و علم سے مزین ہو جائیں اور عمل کو اپنا شعار بنا لیں تو کوئی طاقت ایسی نہیں جو انہیں کامیابی سے روک سکے۔ اقبال کے نزدیک نوجوان صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ وہ کردار اور عمل کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ انہیں یہ یقین تھا کہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کو شعور، اخلاق اور مقصدِ حیات سے آشنا کرنا ہے۔ وہ ایسے نوجوان دیکھنا چاہتے تھے جو اپنی قوم کے لیے فخر کا باعث بنیں، نہ کہ مغربی تہذیب کے اندھے مقلد۔ آج جب ہم اقبال کی بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے افکار آج بھی اسی شدت سے زندہ ہیں۔ پاکستان جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے، اقبال کی تعلیمات ان کا حل پیش کرتی ہیں۔ معاشی ناہمواری، سیاسی انتشار، اخلاقی زوال اور فکری کمزوری یہ سب وہ امراض ہیں جن کے بارے میں اقبال نے دہائیاں پہلے خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومیں بیرونی دشمنوں سے نہیں بلکہ اندرونی کمزوریوں سے تباہ ہوتی ہیں۔ اگر آج ہم اپنی اصلاح چاہیں تو ہمیں اقبال کی فکر کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے