پاکستان کی معیشت نے پچھلے تین سالوں میں افراتفری اور بحران کے سنگم کو چھوا،جب فروغ پذیر افراطِ زر، کرنٹ اکائونٹ خسارہ، زرمبادلہ کے معدوم ذخائر اور سیاسی بے یقینی نے حکومت کو تقریباً دیوالیہ منظرنامے کی دہلیز تک پہنچا دیا۔ تاہم موجودہ اقتصادی رجحانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک محتاط مگر ضرورت مند اِصلاحی سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔سب سے پہلے، وزارت خزانہ اور اسٹینڈ بائی معاہدے کی بحالی نے بیرونی مالی معاونت میں اضافہ کیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر جون تک ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو ایک سال قبل ارب ڈالر تھے اور آئی ایم ایف کے ہدف ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔اس وقت مجموعی زر مبادلہ کے ذخائر20 ارب ڈالر کے قریب ہے۔اسی دوران، ترسیلات زر نے بھی حیران کن اضافہ کیا مالی سال میں یہ رقم تقریبا . ارب ڈالر رہی، جو پچھلے سال . ارب پر سے تقریبا فیصد زیادہ تھی۔ مارچ میں ایک ہی ماہ میں ترسیلات کا ریکارڈ . ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو اس کی تاریخ میں سب سے زیادہ ماہانہ رقم ہے۔ یہ غیر معمولی بہاؤ معیشت کیلئے زندہ دلی کی علامت ہے،برآمدات کے حوالے سے بھی بہتری کا رجحان واضح رہا۔FY25میں برآمدات تقریبا ً ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو کہ FY24 کے ارب ڈالر کے مقابلے میں ایک ارب ڈالرزیادہ تھی۔یہ سب مثبت اشاریے ہمیں بتاتے ہیں کہ معاشی استحکام کی راہ پر قدم اٹھایا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ مجموعی معاشی توازن ابھی بھی نازک ہے۔ IMF نے پاکستان کے ساتھ عمل میں سنجیدگی کو سراہا اور مارچ میں ایک اسٹاف لیول معاہدے پر منتج ہوا، جس سے . ارب ڈالر کے نئے فنڈز کے لیے راہ ہموار ہوئی۔یہ پہلو اہم ہے کہ World Bank نے بھی پاکستان کے لیے سے اگلے دس برس کے لیے ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا جو تعلیمی، خوراکی سلامتی، توانائی شعبوں میں اصلاحات اور استحکام کی جانب کلیدی سرمایہ کاری کا رخ ہے۔ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ عالمی ادارے پاکستان میں جاری ممکنہ اقتصادی اصلاحات پر اعتماد رکھتے ہیں، لیکن یہ سرمایہ بیرونی قرضہ ہے جس سے حقیقی تبدیلی کے لیے حکومت کو مضبوط داخلی اقدامات کرنے ہوں گے۔افراط زر اس وقت فیصد کے درمیان ہے، جیسے روزمرہ اجناس، دوا، کرایہ اور توانائی کے نرخوں نے عوام کی قوت خرید کو متاثر کیا ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور گیس و بجلی کی قلت نے صنعتی پیداواری لاگت بڑھا دی ہے۔ اگرچہ صحیح پالیسیاں طے ہوئیں تو عبوری طور پر آسانی محسوس ہو سکتی ہے، لیکن طویل المدتی ترقی اور ڈیفالٹ کے خطرے سے مکمل نکلنے کے لیے ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں۔آگے کا راستہ واضح ہے: پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجز، جیسے ادائیگیوں کا بیلنس، قرضوں کی ذمہ دارانہ تشکیل، توانائی بحران، اور سیاسی عدم استحکام یہ سب سنبھالنے کے لیے ایک مضبوط میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔ حفاطتی، ٹیکس بنیادوں کو وسیع کرنے، کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، اور تعلیم و صحت میں سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدامات طویل المدتی استحکام کیلے ضروری ہیں۔اگرچہ اب بہتری کا آغاز ہوا ہے زرمبادلہ کے ذخائر بحال ہوئے ہیں، ترسیلات اور برآمدات میں اضافہ ہے، اور بین الاقوامی اعانت بڑھ رہی ہے مگر پاکستان کی کامیابی تبھی یقینی ہو گی جب داخلی اصلاحات، اجتماعی سیاسی ارادے، اور مستقل پالیسی تسلسل سے اس بہتری کو مظبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔معیشت کی بحالی کا سفر جاری ہے، اور پہلی شرائط پوری ہو رہی ہیں۔ اگر پاکستان اب سبقت لے جائے اپنے داخلی وسائل کو منظم کرے، سیاسی ہم آہنگی بنائے، اور اصلاحاتی اقدامات بروئے کار لائے تو وہ مستحکم اور خوشحال مستقبل کا خواب محقق کر سکتا ہے۔ وقت ہے کہ ہم معیشت کو سیاست سے آزاد رکھ کر، آئندہ نسلوں کے لیے خود مختار اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھیں۔

