کالم

پاکستان میں بڑھتی آبادی

پاکستان دنیا کا پانچواں اور اسلامی ممالک میں دوسرے نمبر کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کسی خاموش خطرے سے کم نہیں ہے۔ زیادہ بچوں کی پیدائش کے جہاں معاشرتی اور معاشی نقصانات ہیں، وہیں اسکا سب سے بڑا نقصان ماں اور بچے کی صحت پر ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق، بار بار حمل اور بچوں کی پیدائش نہ صرف ماں کے جسمانی نظام کو کمزور کرتی ہے بلکہ اس کی ذہنی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زچگی کے دوران ماں کی صحت پر پڑنے والے شدید دباؤ کے باعث، اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔دوسری طرف، زیادہ بچوں کی پیدائش کی صورت میں ہر بچے کو مناسب پرورش اور خوراک ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسے بچے وزن میں کم، کمزور، اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ صرف ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بناتا ہے بلکہ خاندان کے وسائل کو بھی بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس طرح، خاندان کے ہر فرد کو معیاری زندگی میسر آتی ہے اور وہ بہتر تعلیم و تربیت حاصل کر پاتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے براہ راست اثرات ملکی معیشت پر پڑتے ہیں۔ جب وسائل محدود ہوں اور آبادی بڑھ رہی ہو، تو ہر شہری کے حصے میں آنیوالے وسائل کم ہو جاتے ہیں۔آبادی میں اضافے کی رفتار ملازمتوں کی پیدائش کی رفتار سے زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لاکھوں نوجوان ہر سال بے روزگار ہو کر معاشرتی اور معاشی مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے آمدنی پر دبا پڑتا ہے اور زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ خوراک، تعلیم، اور صحت جیسی بنیادی ضروریات تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بجلی، پانی، سڑکوں، اور صحت کے اداروں پر شدید دبا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال معیارِ زندگی کو متاثر کرتی ہے اور نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آبادی میں اضافہ صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات بھی گہرے ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی خوراک اور رہائش کے لیے زمین اور پانی جیسے قدرتی وسائل پر بہت زیادہ دبا ڈالتی ہے۔ جنگلات کا کٹا اور آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔بڑھتی آبادی کی وجہ سے اسکولوں اور ہسپتالوں میں ضرورت سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ معیارِ تعلیم اور صحت کی سہولیات متاثر ہوتی ہیں، اور ہر بچے کو معیاری تعلیم اور علاج فراہم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔شہروں میں آبادی کا بے تحاشا اضافہ ٹریفک جام، کچی آبادیوں میں اضافہ اور جرائم جیسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔بڑھتی آبادی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے:حکومتی اور غیر سرکاری اداروں کو خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔ یہ سب سے اہم قدم ہے۔تعلیم یافتہ خواتین کم بچوں کو ترجیح دیتی ہیں اور صحت مند فیصلے کرتی ہیں۔ خواتین کی تعلیم اور معاشی خود مختاری اس مسئلے کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔حکومت کو ایسے منصوبے شروع کرنے چاہئیں جو نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ صنعتوں اور زراعت میں سرمایہ کاری سے معیشت مضبوط ہوگی۔ آبادی پر قابو پانا صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو نظر انداز کرتے رہے تو ہماری آنے والی نسلوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ہمیں آج ہی ہوش مندانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ہم ایک مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے