کالم

پاکستان میں حلف سے روگردانی

اسلام آباد: پاکستان کے آئین اور قانون میں حلف سے روگردانی یا اسکی خلاف ورزی کو ایک سنگین معاملہ تصور کیا جاتا ہے اور مختلف عہدوں کیلئے اسکے مختلف آئینی اور قانونی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اگرچہ حلف سے روگردانی کے عنوان سے کوئی واحد اور جامع قانون موجود نہیں ہے، لیکن آئینِ پاکستان اور دیگر قوانین میں ایسے کئی ضابطے موجود ہیں جو اس فعل پر لاگو ہوتے ہیں اور اس کے مرتکب افرادکیخلاف کارروائی کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
آئینی ڈھانچہ اور حلف کی پاسداری: آئینِ پاکستان کے تحت صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم، وفاقی و صوبائی وزرا، اراکینِ پارلیمان، مسلح افواج کے سربراہان، چیف جسٹس اور دیگر ججز سمیت تمام کلیدی سرکاری عہدیداران اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے پابند ہیں۔ ان تمام حلفوں کا کلیدی جزو آئینِ پاکستان کا تحفظ، دفاع اور اس کی پاسداری کا عہد ہے۔
آئین کی سنگین خلاف ورزی اور غداری: آئین سے انحراف کی سب سے سنگین صورت آئین کو معطل یا منسوخ کرنا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 6 واضح طور پر کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص جو طاقت کے ذریعے یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئین کو منسوخ، معطل یا اسکی خلاف ورزی کرتا ہے، وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا۔ یہ حلف کی خلاف ورزی کی سب سے شدید شکل ہے جس کی سزا قانون کے مطابق موت یا عمر قید ہے۔
صدر کا مواخذہ: آرٹیکل 47کے تحت صدرِ پاکستان کو آئین کی خلاف ورزی یا سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر مواخذے کے ذریعے انکے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ چونکہ صدر اپنے حلف میں آئین کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں، لہٰذا آئین کی خلاف ورزی براہِ راست ان کے حلف سے روگردانی کے زمرے میں آتی ہے۔
اراکینِ پارلیمان کی نااہلی:آئین کے آرٹیکل 62اور 63اراکینِ پارلیمان کی اہلیت اور نااہلی کے معیار مقرر کرتے ہیں۔ اگرچہ ان آرٹیکلز میں براہِ راست حلف توڑنے کا ذکر نہیں، لیکن ان میں دیانتداری، اچھے کردار اور پاکستان کے نظریے سے وفاداری کی شرائط شامل ہیں۔ کوئی بھی رکن جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرتا ہے یا بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے، وہ بالواسطہ طور پر اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ان آرٹیکلز کے تحت نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
عدلیہ اور حلف کی پاسداری:عدلیہ کی تاریخ میں، خاص طور پر "پی سی اوکے تحت حلف اٹھانے والے ججز کا معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں یہ قرار دیا ہے کہ آئین کے بجائے کسی غیر آئینی حکم کے تحت حلف اٹھانا آئین اور اپنے اصل حلف کی خلاف ورزی ہے، اور ایسے ججز کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں توہینِ عدالت کی کارروائی بھی شامل ہے۔
مسلح افواج اور سیاست:مسلح افواج کے اراکین کیلئے حلف میں یہ بات واضح طور پر شامل ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ آرٹیکل 244 کے تحت لیا جانے والا یہ حلف انہیں سیاست سے دور رہنے کا پابند کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کو ایک سنگین ضابطہ شکنی تصور کیا جاتا ہے۔
قانونی ضابطے اور دیگر قوانین(پاکستان پینل کوڈ (: تعزیراتِ پاکستان میں براہِ راست سرکاری عہدے کے حلف کی خلاف ورزی پر کوئی spcifiqueجرم متعین نہیں ہے۔ تاہم، اگر کوئی شخص عدالتی کارروائی کے دوران حلف پر جھوٹا بیان دیتا ہے، تو اس پرجھوٹی شہادت (Perjury)کی دفعات، یعنی دفعہ 191 اور 193کا اطلاق ہوتا ہے، جسکے تحت قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
سرکاری ملازمین کیلئے قواعد:سرکاری ملازمین کیلئے سول سرونٹس رولزموجود ہیں، جن کے تحت حلف کی خلاف ورزی کومس کنڈکٹ یا بدعنوانی تصور کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری ملازم اپنے حلف کے برعکس کام کرتا ہے، تو اسکے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں ملازمت سے برطرفی سمیت دیگر سزائیں ہو سکتی ہیں۔ حلف سے روگردانی پاکستان کے آئینی اور قانونی نظام میں ایک قابلِ مواخذہ فعل ہے۔ اس کی نوعیت اور سنگینی کے اعتبار سے اس کے نتائج مختلف ہوتے ہیں:
آئین کو منسوخ کرنا: سنگین غداری۔صدر کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی: مواخذہ آرٹیکل 47))۔اراکینِ پارلیمان کا غیر آئینی طرزِ عمل: نااہلی(آرٹیکل 62 و 63)۔ججز کا غیر آئینی حلف: توہینِ عدالت اور دیگر قانونی کارروائیاں۔سرکاری ملازمین: انضباطی کارروائی اور ملازمت سے برطرفی۔عدالتی کارروائی میں جھوٹا حلف: قید اور جرمانہ (تعزیراتِ پاکستان)۔لہٰذا، اگرچہ کوئی ایک مخصوص قانون اس پورے معاملے کا احاطہ نہیں کرتا، لیکن آئین اور مختلف قوانین کے ضابطے مل کر ایک ایسا فریم ورک تشکیل دیتے ہیں جو حلف کی پاسداری کو یقینی بناتا ہے اور اس سے انحراف پر کارروائی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ حلف سے روگردانی یا اس کی خلاف ورزی پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت ایک سنگین فعل ہے اور اس کیلئے مختلف ضابطے موجود ہیں۔ اگرچہ اسکے لیے کوئی ایک جامع قانون نہیں ہے، لیکن مختلف عہدیداروں اور حالات کیلئے آئین اور دیگر قوانین میں اس کے سنگین نتائج بیان کیے گئے ہیں۔
آئینی ضابطے:آئینِ پاکستان کے تحت صدر، وزیراعظم، وزرا، اراکینِ پارلیمان، ججز اور مسلح افواج کے اہلکاروں سمیت تمام کلیدی عہدیدار حلف اٹھاتے ہیں، جس کا بنیادی نکتہ آئین کا تحفظ اور اس سے وفاداری ہوتا ہے۔ سنگین غداری (آرٹیکل 6):حلف سے روگردانی کی سب سے سنگین صورت آئین کو توڑنا یا منسوخ کرنا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 6 واضح کرتا ہے کہ جو شخص غیر آئینی طریقے سے آئین کو توڑے گا، وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا، جس کی سزا موت یا عمر قید ہے۔صدر کا مواخذہ(آرٹیکل 47):)اگر صدرِ پاکستان آئین کی خلاف ورزی کریں، جو کہ ان کے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے، تو پارلیمان ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کرکے انہیں عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔اراکینِ پارلیمان کی نااہلی (آرٹیکل 62 اور 63):یہ آرٹیکلز راکین کی اہلیت اور نااہلی کے معیار طے کرتے ہیں۔ اگر کوئی رکن پاکستان کے نظریے یا سالمیت کے خلاف کام کرتا ہے تو یہ اس کے حلف کی خلاف ورزی تصور ہوگی اور وہ نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔عدلیہ کا حلف: ججز بھی آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ ماضی میں غیر آئینی "پروویژنل کانسٹیٹیوشنل آرڈر” (PCO) کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کے خلاف سپریم کورٹ نے کارروائی کی تھی، کیونکہ یہ ان کے آئینی حلف کی خلاف ورزی تھی۔مسلح افواج کا حلف (آرٹیکل 244): مسلح افواج کے اہلکار حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس حلف کی خلاف ورزی ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔
قانونی ضابطے:آئین کے علاوہ دیگر قوانین میںبھی حلف کی خلاف ورزی پر سزائیں مقرر ہیں:جھوٹی گواہی (Perjury): تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 191 اور 93 کے تحت اگر کوئی شخص عدالتی کارروائی کے دوران حلف پر جان بوجھ کر جھوٹا بیان دیتا ہے تو اسے قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔سرکاری ملازمین کے قواعد: سرکاری ملازمین کیلئے بنے "ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن رولزکے تحت اپنے حلف کی خلاف ورزی کو "مس کنڈکٹ” سمجھا جاتا ہے، جس پر محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے اور نوکری سے برطرفی جیسی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے