پاکستان جسے قدرتی وسائل اور نعمتوں سے مالا مال سرزمین کہا جاتا ہے، چار موسم ، معتدل آب و ہوا، رنگا رنگ ثقافتی پہچان، سمندری بندرگاہیں،مضبوط دفاعی نظام اور قومی اتحاد کی وجہ سے اس خطے کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن طاقتوں نے روز اول سے ملک میں تخریبی و تفریقی سازشوں سے اس کی ساکھ اور شناخت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں۔ دہشت گردی اور اسے فروغ دینے والے عناصر نے خطے کی سلامتی کو سوالیہ نشان بنایا۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف کی گئی مثبت کارروائیوں کو نہ صرف کڑی تنقید سے دیکھا گیا بلکہ میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر اس کے کردار کو منفی رجحان دینے کی کوشش بھی کی گئی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب، بنیان المرصوص اور ردالفساد میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے دشمن کے ناپاک عزائم کو ملکی سلامتی سے کھیلنے کا موقع نہ دیا۔ تاہم حالیہ واقعات کے پیش نظر پاکستان کو اس مرتبہ پھر دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے ۔جس سے خیبر پختونخواہ اوربلوچستان کا علاقہ بہت بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور آئی ایس کے پی کا نئے سرے سے بحال ہونا ،بیرونی محفوظ پناہ گاہوں اور اندرونی سیاسی تقسیم کا نتیجہ ہے۔اصل وجوہات کی نشاندہی کرنا، پالیسی خلا کی درستی ، ہ دونوں طرف قانونی اور قومی ردعمل کی فوری ضرورت ہے تاکہ ان گروہوں کو مزید تقویت نہ پہنچ سکے۔بدقسمتی سے ماضی کی مصالحتی پالیسی نے اس مسئلہ کو کم کرنے کی بجائے مزید طول دیا۔سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور "نرم” برتاؤ نے ان گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے کی گنجائش مہیا کی۔حالانکہ ماضی میں ان کا ریکارڈ بڑے پیمانے پر معصوم شہری جانوں کی ہلاکتوں سے جڑا رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج بھی پی ٹی آئی کی زیر قیادت KP حکومت اسی لائحہ عمل کو اپنائے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔جس سے دہشت گرد مخالف کارروائیاں متاثر ہوتی ہیں اور دہشت گرد و شرپسند عناصر تقویت پاتے ہیں۔اور انہیں عوام میں رہ کر تخریب کا ری کے مواقع آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔سیاست میں چونکہ حریف کیخلاف پراپیگنڈے کے تحت حکومتی موقف کو کمزور کرنا ایک تاریخی طرز طریق ہے ، مگر پی ٹی آئی کا دہشت گردی کے معاملے میں حکومتی موقف کو درگزر کرکے کمزور کرنا ،ان کے مذموم عزائم میں ان کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ٹی ٹی پی اور اسکے سربراہان کے بارے میں نر م روی اور عزت افزائی قومی اتفاق رائے کو مجروح کرتی ہے۔دوسری جانب پی ٹی ایم-پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر سکیورٹی فورسز کی ریاستی کارروائیوں کو ڈالروارقرار دے کر انتہا پسند پراپیگنڈے کو آکسیجن فراہم کرتی ہے۔سوشل میڈیا پرفوج مخالف منفی پراپیگنڈا پھیلانے والے پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم کے ارکان کا بیانیہ اتحاد ،قومی امن وسلامتی کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔اس طرح کی تقسیم انگیز اور شر انگیز داستانیں شہدائے پاکستان کے خون کی توہین اور عوامی اتحاد میں کمی کا باعث بنتی ہے۔کے پی حکومت کی اس نرم روی کے نتیجے میں انخلا کے بعددراندازی کی نوعیت خطرناک طور پر بدل چکی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 70 سے 80 فیصد دہشت گرد گروپ جو پاکستا ن میں داخل ہو رہا ہے وہ افغان شہریوں پر مشتمل ہے۔ صرف 2025 میں ٹی ٹی پی کیساتھ لڑتے ہوئے 126 افغان شہری ہمارے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔تاہم ٹی ٹی پی ان کے نقل و حمل اور رہنمائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔افغان مہاجرین کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت مختلف بہانوں کا جواز دے کر غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے عمل کو کمزور بھی کرتی رہی ۔حالانکہ یہ قومی سلامتی کی حکمت عملی کا بنیادی تقاضا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹس نے بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان سرزمین اور وسائل ٹی ٹی پی، آئی ایس-کیپی اور بی ایل اے کیلئے مالی ، عملی اور دفاعی تقویت لئے مستعمل رہے ہیں۔ افغان سرزمین پر 57 سے زائد ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کیمپس ٹریننگ اور حملوں کے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔اس ضمن میں یہ کہنا ضروری خیال کرتاہوں کہ ماضی و حال میں اندرون ملک سیاسی ناتفاقی اور اختلافی بیانیوں نیدشمن کے حوصلوں کو ضرور تقویت دی ہے۔ایک طرف پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور اے این پی دہشت گردی کے خلاف ریاستی کارروائیوں پر تشویش و ابہام پھیلاتے ہیں اور دوسری جانب ریاست مخالف بیانیوں کو بڑھا تے ہیں جس سے عوام اوربالخصوص خیبر پختونخواہ کے عوام (پشتون) ریاست کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔بلاشبہ یہ عمل سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی منافرت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔دہشت گرد افغان کیمپوں میں مقیم لوگوں اور خاص طور پر اندرونی ملک شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ آپریشنز کو مشکل بنایا جا سکے۔ حال ہی میں بلوچستان سے گرفتار ہونے والا یونیوسٹی کا ایک پروفیسر عثمان قاضی جو بظاہر تو تعلیم و تعلم کو فروغ دے رہا تھا مگر درحقیقت دہشتگردوں کا سہولت کار تھا جو اس سے پہلے کئی حملوں میں مدد فراہم کر چکا تھا اور اگست میں یوم آزادی کے موقع پر ایک بہت بڑے خودکش حملے کی تیاری میں مصروف تھا۔ شہدا کے ورثا سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کی قربانیوں کا احترام کیا جا رہا ہے ؟ کیا سبز ہلالی پرچم میں لپٹے ہوئے پاک فوج کے شہیدوں کے لہو سے انصاف کیا جارہا ہے؟ مصالحتی پالیسیاں اور متضاد بیانیے قومی عزائم کو متزلزل کر رہے ہیں۔گمراہ کن اطلاعات انسداد ہشتگردی کے قومی ارادے کو کمزور کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مصالحتی پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ کر اور دہشتگرد سہولت کاروں کے خلاف آہنی دیوار بن کر انکے ارادوں کو تہہ خاک کریں۔پارلیمان ، صوبوں اور میڈیا میں ہم آہنگی پیدا ہو اور افغانستان کے حوالے سے جوابدہی پالیسی سخت ہونی چاہیئے۔پاکستان کو دو طرفہ علاقائی اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز پر افغان عبوری حکومت پر بامعنی دبا ؤبرقرار رکھنا ہوگا تاکہ وہ محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے، لانچ پیڈز بند کرائے اور دہشت گردوں کو سیاسی پردہ فراہم کرنے سے باز رہے۔ مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل بتدریج ہو تاکہ دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے والے سامان اور انسانی رابطے ٹوٹ جائیں۔مگر یہ عمل انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے۔معصوم جانوں کے تحفظ کیلئے بین الاقوامی ضابطے کیساتھ کاربند رہیںلیکن سہولت کاروں، جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور جعلی دستاویزی معیشت کیخلاف فوری کارروائی کی جائے۔ بلوچستان اور فاٹا کے عوام کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ،ترقیاتی منصوبوں کا موثر آغاز کیا جائے اور انتظامی حکمت عملی کو مضبوط بنایا جائے۔دشمن کیخلاف محاذ کو دلائل و شواہد کے ذریعے مضبوط بنایا جائے اور اسی طرح ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔کے پی اور بلوچستان کے عوام کے مقامی عمائدین، علما، نوجوانوں اور ڈیجیٹل میڈیا کو اس مہم میں شریک کیاجانا چاہیئے۔اسکے علاوہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کا اطلاق مسلسل اور مصلحت سے بالا تر ہونا چاہیئے۔آن لائن یا کسی بھی سیاسی سرگرمی کی آڑ میں دہشتگردی کو پشت پناہی نہ دی جائے اور ایسا کرنے والوں کیخلاف عدالتی عمل کی پاسداری کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ ریاستی جواز اور عوامی اعتماد مزید مضبوط بھی ہو اور بحال بھی۔ دہشتگردی کیخلاف یہ جنگ محض سکیورٹی فورسز کی نہیں بلکہ سیاسی، نظریاتی اور سماجی بنیادوں پر محیط ہے۔دہشتگردگروہوں اور سہولت کاروں کی طرف سے دہشتگردی کی نئی لہر کو اسوقت تک نہیں ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک بیرونی سرپرستی ختم نہ کی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جامع قومی حکمت علمی بنا کر ملک میں امن و استحکام کیلئے رستہ ہموا ر کیا جائے اور دہشتگردی اور دشمن کے مذموم ارادوں کا قلعہ قمع کیا جائے۔