کالم

پاکستان میں صنفی مساوات کی سمت پیشرفت

اسلام آباد میں ایک اہم نیشنل ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد عالمی صنفی تفریق کی رپورٹ 2025کا جائزہ لینا اور پاکستان میں صنفی مساوات کے حوالے سے درپیش چیلنجز اور مواقع پر گفتگو کرنا تھا۔ یہ سیمینار نیشنل کمیشن برائے وقارِ نسواں کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس میں حکومتی وزرا، پالیسی سازوں، ماہرین، نوجوانوں، سول سوسائٹی، بین الاقوامی اداروں اور میڈیا کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔ورلڈ اکنامک فورم کی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی صنفی برابری کی صورتحال کا عالمی سطح پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بعض اہم شعبوں میں بہتری دکھائی ہے، خاص طور پر تعلیم اور سیاسی نمائندگی کے میدان میں۔ تاہم، معاشی شرکت اور روزگار میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے پاکستان ابھی بھی نچلے درجے پر ہے۔سیمینار کے آغاز پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ ہمارے لیے آئینہ ہے، جو ہمیں اپنی کمزوریوں کا احساس دلاتی ہے۔ ہمیں اس موقع کو اصلاح اور بہتری کیلئے استعمال کرنا چاہیے تاکہ خواتین کو معاشرے میں باوقار اور مساوی مقام دیا جا سکے۔نیشنل کمیشن برائے وقارِ نسواں کی چیئرپرسن نے اپنی تفصیلی پریذنٹیشن میں بتایا کہ خواتین کی تعلیم، سیاسی عمل میں شمولیت، اور سماجی کردار میں کچھ بہتری آئی ہے، مگر ابھی بھی خواتین کو روزگار، تحفظ اور فیصلہ سازی کے فورمز پر مکمل نمائندگی نہیں مل رہی۔سیمینار میں شریک ماہرین نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تربیت، مالیاتی امداد، اور کام کی جگہوں پر مساوی مواقع مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو تعلیم، صحت، اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ صنفی تفریق کو ختم کیا جا سکے۔سماجی کارکنوں اور نوجوان نمائندوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ معاشرتی سطح پر صنفی برابری کے شعور کو فروغ دینا بے حد ضروری ہے۔ اگر معاشرہ خود خواتین کو برابری کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا تو صرف حکومتی پالیسیاں موثر ثابت نہیں ہوں گی۔میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ ماہرین نے کہا کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ خواتین کی کامیاب مثالوں کو اجاگر کرے، صنفی مساوات پر مبنی مواد نشر کرے، اور عوام میں آگاہی مہمات کے ذریعے رویوں میں تبدیلی لائے۔حکومتی نمائندوں نے سیمینار میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وژن 2025اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کے تحت حکومت خواتین کی ترقی کو اولین ترجیح دیتی ہے۔ حکومتی منصوبوں جیسے”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام”، "کامیاب خواتین اسکیم”، اور دیگر اقدامات کو مزید وسعت دینے پر کام ہو رہا ہے۔سیمینار کے اختتام پر ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ صنفی تفریق کی عالمی رپورٹ کو قومی پالیسی سازی میں شامل کیا جائے گا، ہر سال ایسا نیشنل ڈائیلاگ منعقد کیا جائے گا، اور تعلیم، معیشت، اور قانون سازی میں صنفی مساوات کو یقینی بنانے کیلئے بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔یہ سیمینار نہ صرف ایک جائزہ اجلاس تھا بلکہ پاکستان میں صنفی انصاف اور ترقی کی نئی راہوں کی نشاندہی کا ذریعہ بھی تھا۔ یہ ثابت ہوا کہ اگر حکومتی ادارے، نجی شعبہ، میڈیا، اور عام لوگ ایک ساتھ مل کر کام کریں تو صنفی برابری کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ عالمی رپورٹیں ہمیں تنقید کے ساتھ ساتھ بہتری کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں، اور یہ نیشنل ڈائیلاگ انہی مواقع کو عملی اقدامات میں ڈھالنے کی ایک سنجیدہ کوشش تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے