کالم

پاکستان میں ڈیجیٹل صنفی شمولیت: چیلنجز، مواقع اور اقدامات

ڈیجیٹل دور میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک رسائی کا کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ہے۔ تاہم، پاکستان میں خواتین کو ڈیجیٹل سہولیات کے مساوی مواقع میسر نہیں ہیں جس کے باعث وہ تعلیمی، سماجی اور معاشی ترقی میں زندگی کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ڈیجیٹل صنفی شمولیت کی اہمیت کے پیش نظر اس کے فروغ کے حوالے سے متعدد اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، تاہم صنفی تفرےق اب بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
ڈیجیٹل صنفی فرق: حقائق اور اعداد و شمار
پاکستان میں موبائل فون اور انٹرنیٹ تک خواتین کی رسائی دور جدید میں بھی محدود ہے۔ سال 2024 میں موبائل فون کی ملکیت میں صنفی تفرےق 38 فیصد تھی، جوکہ سال 2022 میں 36 فیصد تھا۔ انٹرنیٹ کے استعمال میں بھی صنفی تفریق 38 فیصد پر برقرار ہے۔ پاکستان میں 133 ملین (ےعنی 13 کروڑ 30 لاکھ) موبائل براڈ بینڈ صارفین میں سے صرف 33 ملین(ےعنی3کروڑ30 لاکھ ) خواتین ہیں، جو مجموعی تعداد کا 25 فیصد ہے، جبکہ 75 فیصد صارفین مرد ہیں۔
سوشل میڈیا تک رسائی:
سال 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 72 ملین (7کروڑ 20لاکھ) افرادسوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں، جو ملک کی 30 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ تاہم، خواتین کی سوشل میڈیا تک رسائی میں نمایاں صنفی فرق موجود ہے۔ فیس بُک پر 77 فیصد صارفین مرد اور 23 فیصد خواتین ہیں، جس سے 68 فیصد صنفی تفریق ظاہر ہوتی ہے۔ یوٹیوب پر 72 فیصد مرد اور 28 فیصد خواتین صارفین ہیں، جبکہ ٹِک ٹاک پر 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں، جس کی صنفی تفریق 71 فیصد بنتی ہے۔ انسٹاگرام پر یہ فرق نسبتاً کم ہے، جہاں 64 فیصد مرد اور 36 فیصد خواتین صارفین ہیں۔ خواتین کو آن لائن ہراسانی، سیکیورٹی خدشات اور سماجی دبا¶ جیسے مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا کے استعمال سے کتراتی ہیں اور ان کی ڈیجیٹل آزادی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
مالیاتی خدمات میں صنفی تفرےق:
مالیاتی شمولیت بھی ڈیجیٹل ترقی کا ایک اہم عنصر ہے، لیکن پاکستان میں اس شعبے میں خواتین کی شرکت بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ ملک میں 117 ملین (یعنی 11 کروڑ 70 لاکھ) برانچ لیس بینکنگ اکا¶نٹس موجود ہیں، لیکن بینک اکا¶نٹ کی ملکیت میں 54 فیصد صنفی تفریق پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر خواتین رسمی مالیاتی نظام سے مبرا ہیں، حالانکہ جاز کیش اور ایزی پیسہ جیسے ڈیجیٹل مالیاتی پلیٹ فارمز خواتین کی مالی شمولیت میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم، ان فوائد سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کی موبائل سم ان کے اپنے نام پر ہو، تاکہ وہ براہ راست اپنے بینکنگ اور مالیاتی لین دین کو کنٹرول کر سکیں اور کسی بھی قسم کی مالی رکاوٹوں سے بچ سکیں۔ بدقسمتی سے، مختلف وجوہات کی بنا پر کئی خواتین کی سم ان کے اپنے نام پر نہیں ہوتی، جن میں معاشرتی پابندیاں، خاندان کے مرد حضرات پر انحصار، شناختی دستاویزات کی عدم دستیابی اور ڈیجیٹل سہولیات سے لاعلمی شامل ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے خواتین کو اپنی سمز اپنے نام پر رجسٹر کرانے کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور اس عمل کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈیجیٹل صنفی تفریق کی وجوہات:
پاکستان میں خواتین کی ڈیجیٹل دنیا سے دوری کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں مالی، تعلیمی، سماجی اور سیکیورٹی سے متعلق رکاوٹیں شامل ہیں۔ اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے خاص طور پر دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے،جس کی وجہ سے خواتین انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے م¶ثر استعمال سے محروم ہو رہی ہیں۔ ثقافتی اور سماجی دبا¶ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے،جہاں کئی خاندان خواتین کو موبائل فون رکھنے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، جس سے وہ ڈیجیٹل دنیا سے کٹ جاتی ہیں۔ مزید برآں، آن لائن سیکیورٹی خدشات، جیسے سائبر کرائم، ہراسانی اور ڈیجیٹل رازداری کے مسائل، خواتین کی آن لائن موجودگی کو محدود کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مربوط حکمت عملی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں مساوی مواقع میسر آسکیں۔
ڈےجےٹل صنفی تفریق میں کمی کےلئے حکومت، نجی شعبہ اور سول سوسائٹی مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ ٹیلی نار کا خوشحال آنگن پروگرام دیہی خواتین کو انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل سہولیات سے آگاہ کر رہا ہے، جبکہ جاز، نالج پلیٹ فارم اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے اشتراک سے 75 خواتین ہائی اسکولوں میں ڈیجیٹل تعلیم متعارف کرائی گئی ہے، جس سے 1,046 خواتین اساتذہ اور 38,453 طالبات مستفید ہو رہی ہیں۔ زونگ فور جی نے درِ یتیم ویلفیئر ٹرسٹ یتیم خانہ برائے لڑکیاں کے ساتھ مل کر ایک ڈیجیٹل لیب قائم کی ہے تاکہ یتیم بچیوں کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھائی جا سکیں۔ پی ٹی سی ایل نے خواتین کے لیے خصوصی وائس پیکج“شی ٹاکس”متعارف کرایا ہے۔ اسی طرح، حکومتی اور بین الاقوامی ادارے بھی اس حوالے سے متحرک ہیں۔ جاز اور یو این ویمن خواتین کی مالیاتی خواندگی بڑھانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ پی ٹی اے اور ٹیلی نار نے اوپن مائنڈ پروگرام کے ذریعے خصوصی افراد کے لیے ڈیجیٹل شمولیت کو فروغ دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی جینڈر فنانشل انکلوژن پروگرام متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد خواتین کی مالیاتی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔
ڈیجیٹل صنفی شمولیت کے فروغ کےلئے مستقبل کا لائحہ عمل :
ڈیجیٹل صنفی تفریق میں کمی کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں مختلف اقدامات شامل کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، ڈیجیٹل خواندگی کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ بچپن سے ہی لڑکیوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دی جا سکے۔ خواتین کے لیے سستے انٹرنیٹ پیکجز اور اسمارٹ فونز متعارف کرائے جائیں تاکہ ان کے لیے ڈیجیٹل سہولیات تک رسائی آسان ہو۔ آن لائن سیکیورٹی اور سائبر کرائم قوانین کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ خواتین کو ہراسمنٹ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ حکومت اور نجی شعبے کے اشتراک سے خواتین کے لیے ڈیجیٹل دنیا میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکیں۔ اس کے علاوہ، مخصوص پالیسیز تشکیل دی جائیں جو خواتین کو ڈیجیٹل دنیا میں مکمل طور پر شامل کرنے میں معاون ثابت ہو سکیں۔
واضح رہے کہ ڈیجیٹل صنفی شمولیت پاکستان کی ترقی کے لیے ایک ناگزیر عنصر ہے، کیونکہ خواتین کی مساوی شرکت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ حقیقی پیشرفت حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی دی جائے تو وہ تعلیمی، معاشی اور سماجی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ڈیجیٹل مہارتوں کے ذریعے نہ صرف خواتین کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ وہ کاروبار، تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں بھی م¶ثر طریقے سے حصہ لے سکیں گی۔ اس کے برعکس، اگر خواتین کو ڈیجیٹل سہولیات سے محروم رکھا جائے تو وہ جدید دنیا کے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں، جس سے نہ صرف انفرادی بلکہ قومی سطح پر ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت، نجی شعبے، اور سول سوسائٹی کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ پالیسی سازی، ڈیجیٹل تربیت، مالی معاونت، اور سائبر سیکیورٹی کے م¶ثر اقدامات کے ذریعے خواتین کو ڈیجیٹل معیشت کا فعال حصہ بنایا جا سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ، تعلیمی اداروں اور کمیونٹی لیول پر آگاہی مہمات چلانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ روایتی رکاوٹوں کو کم کیا جا سکے اور خواتین کو ایک محفوظ اور سازگار ڈیجیٹل ماحول فراہم کیا جا سکے۔ جب خواتین ڈیجیٹل دنیا میں مساوی مواقع حاصل کریں گی تو اس کے مثبت اثرات پاکستان کی معیشت، اختراع اور سماجی ترقی پر بھی مرتب ہوں گے، جو ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی جانب اہم پیشرفت ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے