تاریخی طور پر پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں جو دراصل وقت کے ساتھ بتدریج مضبوط ہو رہے ہیں۔ اس پس منظر میں آذربائیجان کے صدر عزت مآب الہام علیوف کا حالیہ دورہ پاکستان دونوں ملکوں کو مزید کئی شعبوں میں ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنا ،دراصل پاکستان کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استور کیے جائیں ،پاکستان کی یہ بھی دیرینہ خواہش ہے کہ عالم اسلام باہمی اتفاق واتحاد کے زریعے نہ صرف اپنے دیرینہ مسائل مثلا مسلہ کشمیر اور تنازعہ فلسطین حل کرے بلکہ مجموعی طور پر بھی اقوام عالم میں اپنا مثبت کردار ادا کرے ، غیر جانبدار معاشی ماہرین کے بعقول اگر پاکستان اور آزربائجان میں ہونے والے اقتصادی اور دو طرفہ تجارتی معاہدے بروقت پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو یقینا اس سے معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی ، پاکستان اور آذربائجان کے درمیان اقتصادی، توانائی، سیاحت، ثقافتی، تعلیمی، ٹیکنالوجی، صحت کی دیکھ بھال اور ماحولیاتی تعاون، دونوں ممالک کے عوام کے آپس کے روابط سمیت باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں شراکت داری کو بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں،اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی کہ وزیراعظم شبہازشریف نے حال ہی میں باکو کو انتیسویں اقوام متحدہ کانفرنس آف پارٹیز کی میزبانی ملنے پر آذربائجان کے صدر کو مبارکباد اور پاکستان کی بھرپور معاونت کی یقین دہانی کروائی۔آزر بائجان کے صدر کے حالیہ دورے پاکستان میں دو طرفہ امور اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر بھی تعمیری بات چیت ہوئی، دونوں رہنماں نے مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا،بعد ازاں دونوں ممالک کے مابین وفود کی سطح پر ملاقات ہوئی۔وزیرِ اعظم اور آذری صدر نے دونوں ممالک کے مابین تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی اور مشترکہ پریس کانفرنس میں میڈیا سے گفتگو کی۔ آذربائجان کے صدر کی پاکستان کے حوالے سے خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کی مذمت کرتےدکھائی دیتے ہیں، آذر بائجان سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کا فوری طورپر خاتمہ ہونا چاہے ، آذربائجان اس پر بھی متفق ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان اور بھارت میں سب ہی اختلافی مسائل کو بات چیت کے زریعے حل کرنا چاہے، یہی وجہ ہے آذری صدر نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مقف کی بھرپور تائید کی ، اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران مہمان صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت کشمیری لوگوں کی امنگوں کے مطابق آزادانہ استصوابِ رائے سے حل ہونا چاہئیے” آذربائیجان کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی ، مذید یہ کہ آذربائیجان اسلام آباد کی تزین و آرائیش اور خوبصورتی میں اضافے کیلئے تعاون میں اضافہ کرے گا۔ دونوں ملکوں نے باکو اور پاکستان کے مابین پروازوں میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔ دوست ممالک اس پربھی متفق نظر آئے کہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنایا جائے گا، وزیرِاعظم شبہاز شریف نے آذربائیجان میں پاکستانی چاول کی ڈیوٹی فری برآمد کے فیصلے پر آذربائیجان کے صدر کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔آذربائیجان کے صدر نے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں، دونوں فریقین نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں اور دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا،ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوں کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا، وزیراعظم شہباز شریف اور صدر الہام علیوف نے قریبی سیکورٹی اور دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا ،پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان سہ فریقی سربراہی اجلاس کی سطح کے طریقہ کار کو تینوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا گیا ہے۔فریقین نے باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید بڑھانے پر متفق ہیں، توانائی، انفراسٹرکچر، رابطے اور دفاعی صنعت کے شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبے تیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا،وزیر اعظم نے ترجیحی تجارتی معاہدے اور ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے اختتام کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے دو طرفہ تجارت کو تیز رفتاری سے فروغ دینے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا ۔ کثیرالجہتی فورمز بالخصوص اقوام متحدہ اورآئی سی پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی سطح پر اطمینان کا اظہار کیا گیا،پاکستان اور آذربائجان کی قیادت اس حقیقت سے باخوبی آگاہ ہے مسلم دنیا کو درپیش چیلجز کا حقیقت پسندی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا، دونوں اس سچائی سے بھی آگاہ ہیں کہ تاحال طاقت کا توازن مغرب کی جانب ہے لہذا مسلم دنیا کو اپنے مسائل حل کرنےکےلیے جہاں ایک طرف اپنی صفوں میں اتفاق و اتحاد کو فروغ دینا چاہے وہی امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے ساتھ ڈائیلاگ کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی ، حماس اور اسرائیل میں جاری تصادم نے اہل فلسطین کا بالخصوص اور مسلمانوں کا بالعموم نقصان ہورہا ہے ، ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کی شہادت بتا رہی کہ شائد حماس کا گذشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل پر حملہ کسی طور پر مناسب اقدام نہ تھا ، پاکستان اور آذربائجان سمجھتے ہیں کہ مسلم دنیا کو زمینی حقائق کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہے ، یہی وجہ ہے کہ دونوں بردار اسلامی ممالک مسلہ کشمیر کے حل کےلئے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر بات چیت کے آغاز کا مطالبہ کررہے ہیں۔