بلا شبہ کچھ تقاضوں اور ضابطوں کیساتھ 10مئی کو اس خطے میں صرف نیا سورج ہی طلوع نہیں ہوا بلکہ جغرافیہ کا نیا نصاب بھی ترتیب پایا۔ چند گھنٹوں میں 650ارب ڈالر کی معیشت کو پانچ گنا چھوٹے ملک کے عسکری ادارے نے ایسا ریورس گئیر لگایا کہ نہ صرف دنیا کی طاقتور معیشتوں کے روئیے تبدیل ہوئے بلکہ عالمی برادری میں بھارتی ساکھ بھی روبہ زوال اور پاکستان نئی شان سے ابھرنے کو تیار۔ اب تاریخ دان یہ بھی لکھنے پر مجبور ہوں گے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے بھارتی نوجوان اپنے ملک کی دفاعی ٹیکنالوجی کا دفاع تک نہ کر پائے۔ یہ درست عسکری میدان میں روز افزوں ترقی نے جنگی نصاب تبدیل کر دیا کہ اب ٹینک، توپوں اور فوجوں سے دشمن کو چت کرنے کا زمانہ گیا۔ میدان حرب و ضرب میں پاکستان کا نام اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ تبدیل شدہ جنگی نصاب و طریق کے پہلے عملی مظاہرہ کا اعزاز اس کے حصہ میں آیا۔ ہماری زیرک فوجی قیادت نے 16 لاکھ فوج، 750 سے زائد جنگی طیارے، S400 جیسے دفاعی نظام اور 86 بلین ڈالر سالانہ کے دفاعی بجٹ کے حامل دیو ہیکل دشمن کہ جسے عسکری اعتبار سے اپنے مد مقابل (پاکستان) پر برتری اور پھر طاقتور ترین ممالک سے مضبوط تعلقات کا زعم بھی، کو غصہ اور نفرت سے مغلوب ہو کر براہ راست ٹکر مارنے کے بجائے پہلے (خفیہ) معلومات کے میدان میں مات دی اور پھر سائیبر حملوں کے ذریعے اس کی جنگی طاقت کو بے بس کیا۔ جنگی حکمت عملی میں خفیہ اداروں کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا کہ جس ملک کا خفیہ نیٹ ورک جتنا موثر اور مربوط اس کی جیت کے امکانات اتنے زیادہ۔ وسائل کے اعتبار سے ٹاپ 10 میں شمار ہونے والی را، اور اس کی سرپرست و معاون دنیا کی خطرناک ترین خفیہ ایجنسی موساد حیرت انگیز طور پر پاکستان کی صلاحیتوں کو جانچنے میں ناکام رہیں۔ انہوں نے اس کی عسکری صلاحیتوں کو سیاسی و معاشی عدم استحکام کے پیمانے پر جانچا اور تولا، وگرنہ بھارت یا اسرائیل کو کیا پڑی تھی کہ بیٹھے بٹھائے اپنی ساکھ، عزت اور بھرم داو پر لگاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناکامی پر بھارتی قیادت نہ صرف را کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے بلکہ اعلی سطح پر تحقیقات کی مصدقہ اطلاعات بھی۔ یہ جنگ ان دانشوروں کے لیے بھی سوہان روح ثابت ہوئی کہ جو ہر شعبہ میں بھارتی برتری اور بھارتی جمہوریت کے گن گاتے ہیں مگر کیا ہوا کہ وقت آنے پر 75 سالہ بھارتی جمہوریت کام آئی اور نہ وہ شعبے جنہیں آج تک پاکستانی عوام کے سامنے پردھان بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ ان نامعقول دانشوروں کو اپنے پہ اعتماد ہے اور نہ اس ملک پر فخر۔
یہ فتح ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپنے اور دین بیزار دانشوروں کے منہ پر طماچہ ثابت ہوئی کہ وہ آمریت و چنگیزیت کے لبادہ میں لپٹی جمہوریت کو ہی ترقی اور قومی سلامتی کا مآخذ گردانتے تھے۔ مگر بقول اقبال
جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اگر جمہوریت ہی معیار ہوتی تو بھارت کی مضبوط جمہوریت اور مودی کی مقبولیت وسائل کے اعتبار سے اپنے سے کم اور کمزور جمہوری نظام کے حامل مدمقابل سے کیوں نہ بچا سکی ۔ ؟ اس لیے صرف جمہوریت کو پیمانہ ماننے والوں کو سوچنا چاہیے اور سیاسی قایدین کو بھی کہ جن کو ناگزیریت اور مقبولیت کا کیڑا ہمہ وقت تنگ کرتا ہے اور وہ انہیں وطنیت ،حکمت اور دانش کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا کہ قیادت اہلیت و قابلیت کی متقاضی ہوتی ہے نہ کہ مقبولیت کی محتاج۔ اور اس کے لیے معیارات خلفائے راشدین کے طرز انتخاب سے لیے جا سکتے ہیں جبکہ اقبال نے بھی اس پر بڑی شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ۔
اب سوال یہ اہم کہ کیاہم نے اس فتح کو خوشیوں کے شادیانوں تک محدود رکھنا ہے، بغلیں بجاتے رہنی ہیں اور کریڈٹ لینے کے چکر میں ایک دوسرے سے الجھتے رہنا ہے۔ ؟۔ یا اس کو آندھیری رات میں روشنی کا چراغ اور مایوسی میں امید کی کرن جان کر ترقی، استحکام اور عزت و سرفرازی کی سعی بھی کرنی ہے۔ ؟ ۔ یہ درست کہ اس وقت کم و بیش تمام شعبہ جات زوال کا شکار اور سیاست پر مسخروں کا راج۔ مگر صد شکر کہ اس کے باوجود ہماری صلاحیتیں زنگ آلود ہوئیں اور نہ کفر کے مقابل ہمارے قدم ڈگمگائے۔ پر عزم، باہمت اور اہل قیادت اداروں کے مورال اور ماحول کو تبدیل کر دیتی ہے اور یہی کچھ افواج کے ساتھ ہوا۔ کہ گزشتہ کئی سالوں پر اس کے خلاف منظم مہم جوانوں کے مورال پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہوئی۔ جس سے ان طبقات کو شہہ ملتی رہی اور وہ بلاخوف دشمن کے پراپیگنڈا کی آبیاری کرتے رہے مگر جب قیادت صائب مگر درست فیصلوں پر ڈٹ جائے تو گیدڑوں کے ریوڑ کو بلوں میں جانے کو دیر نہیں لگتی۔
قیام پاکستان کے بعد مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی اس نسل کو اگر اللہ نے کھلی نشانی دکھا کر انہیں امت کی قیادت کے طور پر تیاری کا اشارہ دیا ہے تو ہمیں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنا ہے۔ ھم نے اپنے حصہ کی ذمہ داری پوری دیانت و صداقت سے ادا کرنی ہے۔ باقی رہا سیاست دانوں کا معاملہ ان کے پلے ہے کیا ۔ ؟ گالم گلوچ، سیاسی عصبیت، نفرت و عداوت، جھوٹ اور بہتان تراشی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی اب واجب کہ رائج جاگیردارانہ آمرانہ اور فرسودہ سیاسی نظام کہیں اس عظیم فتح کے ثمرات ضائع نہ کر دے۔ اب وقت ہے کہ بنیان مرصوص بن کر اپنی معیشت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، نظام تعلیم سمیت دیگر شعبہ جات کو عسکری میدان میں ترقی کے ھم پلہ کریں کہ اولا اداروں کے سربراہان کا انتخاب اہلیت، قابلیت اور دیانت کے معیار پر اور دوئم کرپشن کا جڑ سے خاتمہ۔ہم نے بھارت کی نفرت میں نہیں بلکہ اس ملک کی محبت میں جینا ہے۔ پاکستان سنسر بورڈ کے سابق چیئرمین حسن ضیا نے بھارتیوں کے پاکستان بارے خیالات و جذبات پر دو سطری جواب دیا جو پاکستان پر طعن کے نشتر برسانے والوں کے مردہ ضمیر جگانے کے لیے کافی۔انکا کہنا تھا کہ "فقط دو ہفتہ بھارت یاترا کے بعد پاکستان واپسی پر جذبات سجدہ ریزی کا تقاضا کرتے ہیں اور یہ خطہ مسلمانوں کے لیے ایسی نعمت کہ ہندوستان کے مسلمان سب کچھ لٹا کر کے بھی آج تک مشکوک وفاداری کے ماحول میں جی رہے ہیں۔” یقینا ہم قائد اعظم کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے مگر کم از کم مادر وطن بارے اپنے جذبات و خیالات پاکیزہ اور مثبت تو رکھ سکتے ہیں۔ اب کہ جب پوری قوم افواج پاکستان پر دل و جاں نچھاور اور عقیدت کے پھول پیش کر رہی ہے میری دانست میں اس موقع پر افواج پاکستان کو عوام پاکستان کی طرف سے اس سے بڑا کوئی خراج تحسین ہو نہیں سکتا کہ وہ بنیان مرصوص بن کر بدعنوانی، کاہلی،جھوٹ و بہتان کو چھوڑ کر نئے عزم اور حوصلہ سے اس ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کا حصہ بنیں کہ جس کی بنیاد ہمارے دفاعی اداروں نے رکھ دی ہے۔ پاکستان ہمارا فخر اور ہماری پہچان، اسی دھرتی میں ھمارا جینا اور مرنا، تو پھر آئیےخود کو سنواریں اور ملک کو بھی کہ یہی حب الوطنی اور غیرت مندی کا تقاضا ہے اور عزت صرف غیرت مندوں کا مقدر !اقبال کا پیغام ہر سرکش نفس والے کے نام۔
"نفس تو مثلِ شتر خود پرور است
خود پرست و خود سوار و خود سر است ”
تیرا نفس اونٹ کی طرح اپنی پرورش میں لگا رہتا ہے
ساتھ ہی وہ خود پرست ، خود سوار اور سرکش ہے