کالم

پاکستان کا المیہ اور اس کا حل

پاکستان آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں مستقبل کا فیصلہ محض وسائل یا صلاحیتوں سے نہیں ہوگا بلکہ سمت کے انتخاب سے ہوگا۔ قومیں تب بدلتی ہیں جب وہ حقیقت کو حقیقت سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور راستہ اس بنیاد پر چنتی ہیں کہ انہیں کہاں جانا ہے پاکستان کی بہتری کوئی معمہ نہیں، مگر اس کیلئے چند بنیادی قدم اٹھانا ناگزیر ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان اقدامات کیلئے ہمت، مستقل مزاجی اور اجتماعی سوچ درکار ہے جسکی کمی ہمارے بحرانوں کی جڑ ہے۔پاکستان کی بہتری کی پہلی شرط یہ ہے کہ ریاست کے تمام ستون اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ یہ کوئی سیاسی بات نہیں، یہ ریاستوں کی بناوٹ سجاوٹ کا بنیادی اصول ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اداروں کی بنیاد ان ہی اصولوں پر رکھی کہ کوئی ادارہ دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ پاکستان میں یہ مسئلہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے کہ طاقت کا توازن آئین کے مطابق قائم نہیں رہنے دیا گیا آئین کا حلیہ اپنی ضرویات کے مطابق بگاڑا جاتا ہے جو شخصیات کے گرد گھومتا ہے اگر ہم واقعی ملک کی بہتری چاہتے ہیں، غیر سیاسی اداروں اور قوتوں کو سیاسی فیصلوں سے دور رہنا ہوگا۔ فوج ملکی دفاع کی ضامن ہے لیکن جب اسے سیاسی عمل میں گھسیٹا جاتا ہے تو نہ سیاست مستحکم رہتی ہے، نہ فوج کا ادارہ غیر متنازعہ رہ سکتا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ جب ریاستی نظام بگڑتا ہے، تو ترقی رک جاتی ہے، سرمایہ کاری کم ہوتی ہے، انتشار بڑھتا ہے اور عوام میں مایوسی پروان چڑھتی ہے۔ملک کی بہتری کی دوسری سب سے اہم شرط یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو اصل مرکزِ اختیار بنایا جائے۔ آئین نے منتخب نمائندوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قانون سازی کریں، اداروں کی نگرانی کریں اور ریاست کی سمت کا تعین کریں۔ مگر ہمارے ہاں پارلیمنٹ کو اکثر کمزور کیا جاتا رہا ہے، یا اسے سیاسی لڑائیوں کا میدان بنا دیا گیا۔ اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے، تو پارلیمنٹ کو بااختیار، فعال، باوقار اور موثر بنانا ہوگا۔ جب فیصلہ سازی منتخب ادارے کرینگے، پالیسیوں میں تسلسل آئے گا، نظام اعتماد سے چلے گا، اور ملک کا ہر شہری دیکھے گا کہ اختیار ایک ہی دروازے پر ہے وہ دروازہ جو عوام کے ووٹ سے کھلتا ہے۔اسکے ساتھ عدلیہ کی حقیقی آزادی نہایت اہم ہے۔ انصاف صرف عدالتوں کی عمارتوں سے نہیں ملتا، بلکہ عدلیہ کی آزادی اور فیصلوں کے غیرجانبدار ہونے سے ملتا ہے۔ پاکستان میں عدالتی نظام کئی چیلنجوں کا شکار ہے مقدمے برسوں تک چلتے ہیں، طاقتور لوگ چھپ جاتے ہیں، کمزور انصاف کیلئے بھٹکتے ہیں اور سیاسی دبا کا سایہ فیصلوں پر پڑتا نظر آتا ہے۔ اگر ریاست نے اپنے شہریوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تو عدلیہ کو مکمل آزاد، باوقار اور موثر بنانا ہوگا۔ ججوں کی تقرری کا نظام شفاف ہو، عدالتی معاملات میں مداخلت کا راستہ بند ہو، اور عام آدمی کو یہ یقین دلایا جائے کہ عدالتیں کسی کے دباؤ میں نہیں بلکہ قانون کے تابع ہیں۔اس وقت سپریم کورٹ اپیلٹ کورٹ بن کر رہ گئی ہے جو حکومت کے دبائو میں فیصلے کررہی ہے ۔ پاکستان کی ترقی صرف ریاستی ڈھانچے کی درستگی سے نہیں آئے گی، بلکہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل اور انصاف سے بھی آئے گی۔ ہماری معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے، پالیسی بدل دیتی ہے۔ معیشت تجربات کا میدان نہیں، مستقل مزاجی کا تقاضا کرتی ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، برآمدات کو بڑھانا، سرمایہ کاری کو آسان بنانا، اور نوجوانوں کو جدید مہارتیں فراہم کرنا بنیادی اقدامات ہیں۔ اگر معاشی فیصلے ہر چند ماہ بعد بدلتے رہیں تو معیشت کبھی مستحکم نہیں ہوتی۔ پاکستان کو ایک شفاف، مضبوط، اور غیرمتزلزل معاشی فریم ورک کی ضرورت ہے جسے کوئی حکومت اپنے مفاد کیلئے تبدیل نہ کرے حکومت کا کام معیشت درست کرنا ہوتاہے۔ 5300ارب کی کرپشن کی حالیہ رپورٹ کا پبلک ہونا کیا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اور اس ملک کے حکمرانوں کے نزدیک کرپشن کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے یہ کیسا ملک ہے ملک اس طرح نہیں چلتے ۔تعلیم بھی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے اس کیلئے قومی ترجیح کبھی نہیں بنی۔ دنیا کی کوئی قوم بہتر استاد، بہتر نصاب، اور بہتر تحقیق کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں تین سے زیادہ تعلیمی نظام چل رہے ہیں، جو معاشرے کو طبقاتی خلیج میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا نصاب درکار ہے جو یکساں، جدید، سائنسی اور تنقیدی سوچ پیدا کرنیوالا ہو۔ ہماری یونیورسٹیاں تحقیق کے بجائے ڈگریاں بانٹنے والی فیکٹریاں بن گئی ہیں۔ تعلیم کا بجٹ بڑھانا، اساتذہ کی تربیت بہتر بنانا اور تعلیمی اداروں کو سیاسی اثرات سے پاک رکھنا ناگزیر ہے۔ یہاں سفارش کرپشن اور اقربا پروری بھی عروج پر ہے تعلیمی اداروں کے سربراہ اپنی پرموشن اور جھوٹی نیک نامی کے فیک نتائج حاصل کرتے ہیں ۔ پاکستان کی بہتری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے ہم اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں ہماری اجتماعی سوچ اور معاشرتی روئیے قانون پر عمل نہ کرنا ، ٹیکس نہ دینا جلد بازی، الزام تراشی، برداشت کی کمی، جھوٹ کا رواج، اور اداروں کی بے توقیری ان تمام برائیوں نے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہوا ہے۔ کوئی ریاست اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک اس کے شہری قانون کا احترام نہ کریں، ایک دوسرے کے حقوق کو تسلیم نہ کریں اور اجتماعی بھلائی کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہ دیں۔ ہمیں بطور قوم اپنے رویوں کی اصلاح کرنی ہوگی، ورنہ بہترین نظام بھی ناکام ہو جاتا ہے ۔پاکستان کی ترقی کا ایک اور لازمی جز میڈیا اور سوشل میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ قومیں اس وقت بکھرتی ہیں جب ان کی فکری سمت بکھر جائے۔ ہمارا میڈیا سیاست اور سنسنی میں اتنا الجھ گیا ہے کہ قومی تربیت کا کردار پیچھے چلا گیا۔ اگر پاکستان کو مضبوط ذہنی ڈھانچہ چاہیے تو میڈیا کو ذمہ داری سے کام کرنا ہوگا، جھوٹی خبروں کیخلاف کھڑا ہونا ہوگااور سرکاری سطح پر جھوٹ نشر کروانا بند کرنا ہوگا میڈیا ریاست کا چوتھا بڑا ستون ہے اس کا گلہ گھوٹنا بھی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کیلئے اچھا نہیں ۔آخر میں سب سے بنیادی بات پاکستان کو ایک ایساسماجی معاہدہ چاہئے جو سب کو قبول ہو۔ وہ معاہدہ یہ ہے ،ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے ۔ فوج دفاع کا کام کرے ۔پارلیمنٹ کوپورا اختیار ملے۔عدلیہ مکمل آزاد ہواور عوام اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔اگر ہم یہ چار بنیادی ستون مضبوط کر لیں تو باقی ہر مسئلہ چاہے معاشی ہو یا انتظامی خود بخود درست ہونا شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، سمت کی کمی ہے۔پاکستان وہی بن سکتا ہے جس کا خواب کروڑوں دلوں نے دیکھا ہے بس شرط یہ ہے کہ ہم فیصلہ کر لیں کہ ہمیں آئین کا راستہ اختیار کرنا ہے اور اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹنا ۔ یہ پکار لندن سے ہے، مگر دل پاکستان میں دھڑکتا ہے۔وقت کم ہے فیصلہ ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے