اداریہ کالم

پاکستان کی فرینکفرٹ میں قونصلیٹ جنرل میں توڑ پھوڑ کی مذمت

افغان شہریوں نے اتوار کو فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر حملہ کیا، اس پر پتھراﺅ کیا اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔مظاہرین نے عمارت سے پاکستانی جھنڈا ہٹانے کےلئے دیواریں توڑ دیں اور اسے جلانے کی کوشش کی۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مظاہرین کو قونصل خانے پر دھاوا بولتے، پتھر پھینکتے اور پاکستانی پرچم کو ہٹاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔حملہ آوروں نے پرچم کو جلانے کی کوشش کی۔ جرمن پولیس نے ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔ 8سے 10افغان شہری پاکستانی قونصل خانے پر دھاوا بول رہے تھے اور پاکستانی پرچم اتار کر فرار ہو گئے۔ دفتر خارجہ نے اپنے قونصل خانے میں سیکیورٹی کی خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جس سےاس کے سفارتی عملے کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔اس حملے کو قونصلر تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن، 1963 کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو میزبان حکومت کو قونصلر احاطے کی حفاظت اور سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا پابند بناتا ہے۔دفتر خارجہ نے جرمن حکومت کو اپنا احتجاج باضابطہ طور پر پہنچا دیا ہے، جس میں ویانا کنونشن کی دفعات کو برقرار رکھنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔پاکستان کی حکومت نے جرمن حکام پر زور دیا ہے کہ وہ جرمنی میں اپنے سفارتی مشنز اور عملے کو محفوظ بنانے کے لیے سخت اقدامات پر عمل درآمد کریں۔پاکستان نے جرمن حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حملے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر گرفتار کریں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں اور کسی بھی حفاظتی کوتاہی کو دور کریں جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔پاکستانی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ یہ حملہ جرمن حکام کی طرف سے سیکیورٹی کی ایک سنگین خامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمن حکام نے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کے مطابق قونصل خانے کے عملے کو آئندہ احتجاج یا سفارتی سہولت کے لیے سیکیورٹی بڑھانے کے بارے میں مطلع نہیں کیا۔برلن میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے قابل مذمت فعل قرار دیا تھا۔ اس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر لکھا کہ سفارتی مشن جرمن حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایسی صورت حال دوبارہ پیدا نہ ہو اور شرپسندوں کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔سفارت خانے نے جرمنی میں پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اس واقعہ کے بعد صبر اور پرسکون رہیں۔جرمن حکام نے ملک میں پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کو مجرمانہ سرگرمیوں سے جوڑ دیا ہے اور گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ مجرموں کی افغانستان واپسی دوبارہ شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔جرمن وزیر داخلہ نینسی فیسر کی طرف سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ایک 25 سالہ افغان پناہ گزین پر مانہیم میں ایک پولیس افسر کو چاقو سے مارنے کا الزام لگایا گیا تھا۔اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی نے اپنے آبائی ملک میں موت کے خطرے کے پیش نظر تارکین وطن کو افغانستان بھیجنا بند کر دیا۔وزیر داخلہ فیسر نے 4 جون کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا، یہ بات میرے لیے واضح ہے کہ جو لوگ جرمنی کی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ ہیں، انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جانا چاہیے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے ملک کے سکیورٹی کے مفادات واضح طور پر متاثر ہونے والوں کے مفادات سے زیادہ ہیں اور، ہم مجرموں اور خطرناک لوگوں کو افغانستان اور شام بھیجنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔جرمن حکام نے فرینکفرٹ میں پاکستانی سفارتی حکام کو واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سوشل میڈیا پر ویڈیوز کی گردش کے بعد متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ اس واقعے نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید اضافہ کر دیا۔ واقعے نے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھیڑ دی جس میں بہت سے پاکستانیوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا کہ افغان ایسے ملک کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں جس نے ان کے ساتھ اتنی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔پاکستان اب بھی لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے کیونکہ بہت سے لوگ اپنے وطن میں بدامنی کے باعث فرار ہو گئے تھے۔ بہت سے افغانوں نے پاکستان میں اپنی قسمتیں بنائی ہیں، جنہوں نے منافع بخش کاروبار قائم کیے ہیں اور ملک میں جائیدادیں ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں جب افغان شہریوں کے کسی حصے نے غیر جانبدار مقام پر پاکستان کے خلاف دشمنی کا مظاہرہ کیا ہو۔2019میں شارجہ میں ایشیا کپ میں افغانستان کے خلاف پاکستان کی جیت شائقین کے دو سیٹوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے متاثر ہوئی۔سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں دکھایا گیا تھا کہ افغان شائقین اپنی ٹیم کو ایک وکٹ میچ ہارنے کے بعد اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام رہے اور اپنے غصے کا اظہار پاکستانی شائقین کو مارنے کے ساتھ ساتھ اسٹیڈیم کی املاک میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے کیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنےوالی ٹیم نے ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا، ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔ کچھ دیگر رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ افغان عسکریت پسند اس ریاست کے خلاف ٹی ٹی پی کی لڑائی میں حصہ ڈالتے ہیں۔
اسلام آباد میں ائیرایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعلان
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اسلام آباد میں ائیرایمبولینس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا۔ جناح میڈیکل کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ نوازشریف کی قیادت اور مخلوط حکومت کا جڑواں شہروں کےلئے ہی نہیں بلکہ کے پی،کشمیر ،گلگت بلتستان کے مریضوں کے لئے بھی تحفہ ہوگا۔یہاں نرسنگ سکولز اور جدید لیب بنیں گی۔ جدید ہسپتال میں پیچیدہ ترین امراض کا علاج ہوگا۔آغا خان فاﺅنڈیشن نے اس سنٹر کی تمام کنسلٹنسی بلامعاوضہ دی ہے جس پران کے مشکور ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے کئی دہائیوں سے صحت کے شعبہ اور پاکستان کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیاہے۔ کمپلیکس کےلئے 600کنال اراضی مختص کی گئی ہے جبکہ 200کنال کا کمرشل سنٹر بھی اس ہسپتال کے نام کیا ہے، اس کی آمدن اس ہسپتال کے بننے والے ٹرسٹ میں جائے گی۔ یہ وہی ماڈل ہے جس کا نوازشریف نے اجراءکیاتھا کہ عام پاکستانی کےلئے علاج مفت ہو۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ہر پاکستانی کا حق ہے۔ پی کے ایل آئی نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاءکا بہترین ہسپتال ہے۔تاہم ایک سازش کرکے اس منصوبے کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔پی کے ایل آئی ہسپتال کے بورڈ میں قابل ترین لوگ شامل تھے۔وہ ختم کیاگیااس کو ٹرسٹ سے ہٹاکر محکمہ صحت کے حوالے کیاگیا۔کووڈ کے دوران اس کی سہولیات سے بہت فائدہ اٹھایاگیا اور یہ ایک مرکز بناہوا تھا۔اس سے قبل مریض لاکھوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک علاج کےلئے جاتے تھے ،اس ہسپتال میں ہزاروں مریضوں کا مفت ٹرانسپلانٹ کیاگیا۔ جناح میڈیکل کمپلیکس میں مستحق مریضوں کو سو فیصد مفت علاج کی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔تاہم صاحب حیثیت لوگوں کو علاج پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ جناح میڈیکل کمپلیکس میں تمام جدید سہولیات ہوں گی،یہاں میڈیکل سکول قائم کیاجائےگا۔یہ سنٹر صوبوں سے مزید ہم آہنگی اور رابطہ کا ذریعہ ہوگا۔یہاں ایمرجنسی میں ائیر ایمبولنس دستیاب ہوگی،اس منصوبے کے لئے جتنے بھی فنڈز درکار ہوں گے وہ مہیا کئے جائیں گے۔ ہسپتال میں امیر وغریب کو یکساں صحت کی سہولیات میسر آسکیں گی۔صحت اورتعلیم کے بغیرکوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا یہ دونوں لازمی جزئیات ہیں مگر ہمارے یہاںملکی سطح پر صحت اور تعلیم کو وہ ترجیح نہیں دی گئی جس کا تقاضا ہمارے سماجی حالات کرتے ہیں۔ صحت اورتعلیم کے نام پر نجی شعبوں میں جوکھیل کھیلاجارہاہے وہ ناقابل برداشت ہے ۔ایسے حالات میں حکومت کا صحت کے حوالے سے یہ اقدام قابل ستائش ہے یقینا ایسے اقدامات سے عوام کو صحت کی سہولیات میسر آئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے