کالم

پاک اسرائیل تعلقات اور عمران خان پرالزامات

سنجیدہ حلقوں کے مطابق کسے علم نہےں کہ پاکستان اپنے قیام کے روز اول ہی سے فلسطین کے پُرزور حامیوں سے ایک رہا ہے اور فلسطین کےلئے اس کی یہ حمایت کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ رہی ہے۔فلسطین سے متعلق پاکستان کا یہ دوٹوک نقطہِ نظر اس کی بحیثیت اسلامی جمہوری شناخت اور امت مسلمہ سے وسیع تر وابستگی کے سبب ہے۔یاد رہے کہ نظریہ پاکستان اور امت واحدہ کا رُکن ہونے کی حیثیت سے اسرائیل کے وجود کا تسلیم کیا جانا پاکستان کی اس واضح شناخت سے متصادم سمجھا جاتا ہے اورفلسطین کےلئے پاکستان کی غیرمتزلزل حمایت سیاسی سے زیادہ اسلامی ہے اور یہ سوچ پاکستانی سماج اور عوام میں عقیدے کی طرح راسخ ہو چکی ہے۔ مبصرین کے بقول اس کا مشاہدہ قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک ہر حکومت کی پالیسیوں میں کیا جاسکتا ہے اوریہ اسی کا اثر ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کارروائیوں کی اعلانیہ مذمت، سفارتی تعلقات میں عدم دلچسپی اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا آیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیل کیخلاف پاکستان کا م¶قف اور طرزعمل اسرائیل کے قیام کے روز ہی سے واضح ہے۔ پاکستان نے خود کو ہمیشہ اسرائیل کے مخالف ممالک سے ہم آہنگ کیا ہے جبکہ یہ اتحاد اسلامی تعاون تنظیم اور دیگر اسلامی اتحادوں میں پاکستان کی رکنیت کے ذریعے مزید مضبوط ہوا۔ یہ تمام وہ فورمز ہیں جہاں مسئلہ فلسطین ہمیشہ ایک مرکزی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔یاد رہے کہ عمران خان نے اپنی وزرات اعظمیٰ کے دوران میں مسئلہ فلسطین کےلئے پاکستان کی روایتی حمایت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اورفلسطین و فلسطینیوں کےلئے صدا بلند کرنے کیساتھ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل تک مسترد کر دیا۔ عمران خان کا یہ م¶قف نہ صرف عوامی خواہشات کا مظہر بلکہ پاکستان کی اس مسئلے پر طویل خارجہ پالیسی کے عین مطابق تھا ۔مبصرین کے مطابق ان واضح عوامل کے ہوتے ہوئے عمران خان کے دور اقتدار میں ایک پس پردہ پالیسی اختیار کی گئی جو مسئلہ فلسطین پر ان کے عوامی م¶قف اور خاموش سفارتکاری کے درمیان نام نہاد توازن برقرار رکھنے کی کوشش تھی۔ عمران خان نے ایک طرف پاکستان کے دیرینہ دوستوں چین اور سعودی عرب کیساتھ تعلقات کو مضبوط تر کرنے کی کوشش کی،تو دوسری طرف پاکستان کی عمومی خارجہ پالیسی کے برخلاف پاکستان مخالف ممالک سے بات چیت کی راہ نکالی۔ عمران خان کا یہ نقطہِ نظر اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اسرائیل سے متعلق پاکستان کے سخت گیر م¶قف پر نظرثانی کےلئے لچک دکھا سکتے ہیں ۔واضح رہے کہ عمران خان کے گولڈ اسمتھ خاندان، بالخصوص سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ سے انتہائی قریبی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یہ غیرمعمولی تعلقات اسرائیل سے متعلق ان کے م¶قف میں ممکنہ تبدیلی کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ گولڈ اسمتھ خاندان برطانوی اشرافیہ کا اہم رکن ہے۔ جمائما کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ برطانوی سیاست میں شامل رہے ہیں۔ جس وقت وہ لندن کے میئر کا انتخاب لڑ رہے تھے، تب عمران خان کی ہمدردیاں اور حمایت ایک مسلم امیدوار صادق خان کے بجائے یہودی النسل زیک گولڈ اسمتھ کے ساتھ تھیں اور موصوف کا یہ طرز عمل گولڈاسمتھ خاندان اور اس کے وسیع نیٹ ورک کےلئے غیرمشروط وفاداری کو ظاہر کرتا ہے۔اس بات کے شواہد پائے جاتے ہیں کہ عمران خان نے گولڈ اسمتھ خاندان کے توسط سے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھیجے، جن میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر غور کرنے اور پاکستان میں اسرائیل مخالف بیانیے کو قابل قبول بنانے کی خواہش شامل تھی۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یہ اقدامات اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ اسرائیل سے متعلق عمران خان کے رویے میں نرمی پائی جاتی ہے،اوریہ رویہ اسرائیل سے متعلق پاکستان کے بنیادی م¶قف سے متصادم ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کی استواری کی اس خواہش کو مشرق وسطیٰ میں بدلتی تذویراتی صورتحال کے تناظر میں بھی سمجھا جاسکتا ہے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حا مل ہے کہ عمران خان کی مغربی تعلیم اور مختلف ثقافتی اور سیاسی دائروں کے درمیان رابطہ کاری کی صلاحیت انہیں اسرائیل اور مسلم ممالک کے درمیان ممکنہ ثالث کی منفرد پوزیشن عطا کرتی ہے۔ عمران خان پر نظر انتخاب اس وقت گئی جب ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں کی گئیں، یہ وہ دور تھا جب مذکورہ دونوں ممالک معاہدہ ابراہم (Abraham Accords) سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے اسرائیل سے بہتر تعلقات کے لئے کوشاں تھے۔مبصرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی مغرب اور اسلام کے درمیان قربت پیدا کرنے کی صلاحیت پاک اسرائیل تعلقات استوار کرنے میں بھی معاون ہوگی۔ ان کے گولڈ اسمتھ فیملی سے ذاتی تعلقات اور اسٹریٹجک نقطہِ نظر کو اسرائیل اور ان دیگر مسلم ممالک کے مابین ثالثی کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو وسیع تر علاقائی تبدیلی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ عمران خان کی جانب سے اسرائیل سے متعلق پاکستان کے واضح موقف کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ پاکستان کے سیاسی افق پر مذہبی جماعتیں متاثر کُن اثر رکھتی ہیں۔یہ وہ جماعتیںہیں جو اسرائیل مخالف جذبات رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ رائے عامہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں، لہٰذا عمران خان کو ایسے کسی بھی اقدام کی صورت میں عوام اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ان ممکنہ چیلنجز کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قبل ازیں عمران خان نے تعلیمی اصلاحات اور خواتین کے حقوق جیسے اہم امور میں طاقتور مذہبی تنظیموں کو کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔ایسے میںیہ امید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان وسیع ترمفادات کی خاطر اسرائیل سے متعلق مختلف نقطہ ِنظر کو اپنانے کےلئے آمادہ ہو سکتے ہیں۔مشرق وسطیٰ تبدیلی کے ایک اہم دور سے گزر رہا ہے۔اس کی نشاندہی بدلتے اتحاد، اقتصادی مفادات اور انتہا پسندی کے مشترکہ خطرے سے ہو رہی ہے۔ اس غیرروایتی سوچ کیساتھ سفارتکاری اور غیرمتوقع اتحادوں کے اس پس منظر کے درمیان پاک اسرائیل تعلقات کیاستواری میں عمران خان کا ممکنہ کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پھر پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی خطے میں رونما ہوتی ان تبدیلیوں کے تابع ہوگی جن کا تصور اس سے قبل محال تھا، یوں ممکنہ طور پر اسرائیل اور وسیع تر اسلامی دنیا کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔مغربی اور اسرائےلی ماہرین کے مطابق پاکستانی سیاست میں عمران خان کی واپسی کے لیے اسرائیل اور اس کے اتحادی جو کچھ بھی کرسکتے ہیں انہیں کرنا چاہیے، تاکہ عمران خان اعتدال پسندی کی آواز بن سکیں۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق مشہور اسرائیلی اخبار” دی ٹائمز آف اسرائیل “میں خاتون یہودی صحافی اینور بشیروا کے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ایسے متعلق چشم کُشا انکشافات سامنے آئے ہےں جن پر کھل کر تبصرہ نہ کرنا ہی سب سے بہترین تبصرہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے