اداریہ کالم

پاک ایران بارڈر مارکیٹ اور بجلی ترسیلی لائن کا افتتاح

idaria

جیسا کہ ہم پہلے بھی متعدد بار ان سطور میں لکھ چکے ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت اپنے دیرینہ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں قربت لانے کےلئے بھرپورکوششیں کررہی ہے جن میں گزشتہ حکومت کے دوران کچھ تعطل پیدا ہوئے تھے اور کچھ دوریاں پیدا ہورہی تھیں مگر موجودہ حکومت پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ ان ممالک کے ساتھ ازسرنو تعلقات کی تجدید کررہی ہے جس کے ثمرات برآمد ہوناشروع ہوگئے ہیں ان ممالک میں عوامی جمہوریہ چین، سعودی عرب ،ترکیہ ،یواے ای اور اسلامی جمہوریہ ایران سرفہرست شمار کئے جاتے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ پاکستان کے گہرے ثقافتی، سیاسی اور مذہبی روابط پائے جاتے ہیں ۔سرزمین ایران پر نبی مکرمﷺ کی اولاد پاک کے مزارات واقع ہیں جن کی زیارت کےلئے ہرسال لاکھوں پاکستانی ایران کادورہ کرتے ہیںجس کے ساتھ ساتھ سابق صدرفیلڈمارشل ایوب خان کے دور میں ترکیہ، ایران اور پاکستان کے مابین علاقائی تعاون کی تنظیم آرسی ڈی قائم کی گئی تھی جس کے تحت تینوں ممالک کوریل اوربذ ریعہ سڑک ملانے کے لئے آرسی ڈی شاہراہ بھی تعمیر کی گئی تھی ۔اس تنظیم کابنیادی مقصد علاقائی تجارت کو فروغ دینا اور مستحکم بناناتھا ۔اس تنظیم کی کامیابی کے بعد اس کادائرہ کار خطے کے دیگرممالک تک بڑھایا گیا اور اسے ایکوکانیانام دیا گیا ۔ ایران پاکستان کاوہ دوست ملک ہے جس نے بین الاقوامی محاذ پر مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تمام مسائل پر پاکستانی موقف کی تائید اعلانیہ طورپرکی اور اس کے ساتھ ساتھ ایران دنیاکاواحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کی آزاد حیثیت کو اقوام متحدہ میں تسلیم کیا۔ ایران کے ساتھ تجارت کے بہترین مواقع موجود ہیں ،ایرانی مصنوعات ،ایرانی تیل پاکستا ن کو سستے داموں میسرہے ۔سابق صدرآصف علی زرداری کے دورمیں ایران سے سستے داموں قدرتی گیس کی فراہمی کے ایک منصوبے کاآغازبھی کیاگیاتھا۔ایران نے اپنے حصے میں گیس پائپ لائن کی تعمیرکم مدت میں مکمل کردکھائی جس کاافتتاح سابق صدرمملکت آصف علی زرداری نے خود ایران جاکرکیاتھا مگر بعد میں یہ منصوبہ بین الاقوامی سازش کاشکار ہوا اوراس میں تعطل پیدا ہوگیامگر موجودہ حکومت نے پاکستان میں توانائی کے بحران پرقابوپانے اوربلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کےلئے ایک برق رفتار منصوبہ تیارکیا جس کے ذریعے ایران سے سستے داموں بجلی کی درآمد شامل تھی جس پر عمل کرتے ہوئے ایران سے روزانہ 100میگاواٹ بجلی لانے کامنصوبہ بنایاگیاجس کوایک سال کی کم مدت میں مکمل کرلیاگیا جس کے افتتاح کے لئے گزشتہ روز اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر پاکستان تشریف لائے اور انہوں نے وزیراعظم پاکستان محمدشہبازشریف کے ساتھ ملکر پاک ایران سرحد مندپشین پر تجارت کے فروغ کیلئے بارڈر مارکیٹ اور بجلی ترسیلی لائن کا افتتاح کیا۔ اس منصوبے کے تحت ایرانی سرحدکے ساتھ ملنے والے پاکستانی صوبہ بلوچستان کے اضلاع کوایران سے سستے داموں بجلی درآمدکرکے روشن کیاجائے گاگوکہ اس منصوبے پربھی عالمی طاقتوں کی نظر ہے کہ اسے کسی طورپرناکام بنایاجاسکے مگر اب تک امید یہی کی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت ہرحال میں اسے کامیاب کرکے دکھائے گی ۔ایرانی صدر کی آمد کے موقع پر بارڈرٹریڈپروگرام کے تحت پاک ایران سرحدکی دونوں جانب نئی تجارتی مارکیٹوں کے قیام کاافتتاح بھی تھا جس کامقصد علاقے میں سستی اشیائے صرف کی قانونی تجارت کی اجازت دینامقصودتھا اوراس مارکیٹ کاقیام دراصل روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی سمگلنگ کوروکناتھا اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کی خواہش کے مطابق ایران کو بین الاقوامی منصوبے سی پیک میں شامل کرنابھی شامل تھا۔اسی حوالے سے گزشتہ روز افتتاح کے موقع پر وزیرِ اعظم شہبازشریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کی سرحد پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا گیا، بارڈر مارکیٹ کے قیام سے علاقے میں ترقی اور خوشحالی آئے گی، مستقبل میں ٹریڈ کے مراکز بنیں گے۔میں نے اپنے بھائی ایرانی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت دی، ایرانی صدر نے کہا کہ وہ ضرور پاکستان آئیں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران برادر اور ہمسایہ ممالک ہیں، دونوں ممالک کو تجارت، زراعت اور دیگر شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایران سے بجلی کی ٹرانسمیشن اور سولر انرجی میں بہت گنجائش ہے، ہمیں تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، ایرانی صدر سے مفید اور مثبت گفتگو ہوئی، تجاویز پر عمل درآمد کے لئے تیزی سے قدم اٹھائیں گے۔ ایران اور پاکستان مل کر دونوں ممالک کے عوام کے لئے ترقی و خوشحالی لا سکتے ہیں۔شمسی توانائی کے حوالے پاکستان اور ایران کے وفود آئیں گے، گوادر کےلئے 100 میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا منصوبہ بہت تاخیر کا شکار تھا۔ گوادر کےلئے 100میگا واٹ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا منصوبہ سرد خانے میں تھا، گوادر میں اب ایران سے روز سو میگا واٹ بجلی کی ترسیل ہو گی، جس کے ٹیرف کےلئے ایران سے بات کی جائے گی۔پاک ایران دوستی کے حوالے سے یہ منصوبے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، اس سے دونوں ممالک کی دوستی مضبوط ہو گی اور یہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کےلئے سنگ میل ثابت ہو گی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ منصوبے پر پاکستانی حکومت اور عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، توانائی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ منصوبے سے دونوں ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، منصوبے کی تکمیل میں شامل تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں، خطے کے تمام مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ایران اور پاکستان کی سرحد پر 3 نئی تجارتی منڈیاں بھی کھولی جارہی ہیں، مند کے مقام پر پاک ایران تجارتی منڈی کھول دی گئی ہے جبکہ 2 منڈیوں کا کام ترجیحی بنیادوں پر جاری ہے۔
امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بازرہے
پاکستان چونکہ عالم اسلام کی پہلی اورواحدایٹمی قوت ہے اس لئے ان کے اندر داخلی انتشار اور معاشی طورپرکمزوربنانے کے لئے عالمی طاقتیں مسلسل متحرک ہیں اور آئے دن پاکستان پر شخصی آزادیوں ،انسانی حقوق کی تلفیوں اور مذہبی آزادیوں کابلاجوازپروپیگنڈاکرتی چلی آرہی ہیں ۔ اسی حوالے سے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ہمیں اپنے مذہبی تنوع اور سماجی اقدار پر فخر ہے۔ پاکستان کا آئین، تمام پاکستانیوں کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ اور ان کے عقیدے سے قطع نظر ان کو آگے بڑھانے کےلئے وسیع پیمانے پر قانونی، پالیسی اور مثبت اقدامات کےلئے ایک مضبوط فریم ورک متعین کرتا ہے۔یہ حقوق اور آئینی ضمانتیں ایک آزاد عدلیہ کے ذریعہ محفوظ اور برقرار ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ہر ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے مذہبی حقوق اور آزادیوں کو فروغ اور تحفظ فراہم کرے۔ پاکستان نے مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے اہم سوال پر باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کےلئے ہمیشہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری تعاون کیا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر مذہبی عدم برداشت، امتیازی سلوک اور اسلامو فوبیا کی ان خطرناک اشکال کا مقابلہ کرینگے۔دوسری جانب پاکستان کی صورتحال پر امریکا کے 60اراکین کانگریس نے وزیرخارجہ انتونی بلنکن کو خط لکھ دیا،خط میں پاکستان میں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا احترام یقینی بنانے کیلئے دبا ﺅڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے،اس کے علاوہ خط میں سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاﺅن پر اظہار تشویش کیا گیا جبکہ آزادی اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی پر کسی خلاف ورزی کی تحقیقات کرانے پر زور بھی دیا گیا۔دوسری جانب پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے صدر، وزیراعظم، ججز، وفاقی وزرائ، بیوروکریٹس اور ارکان اسمبلی کی پیش کی گئیں مراعات کی تفصیلات کو مسترد کر دیاجبکہ امریکی و برطانوی اراکین کانگریس کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا نوٹس لے لیا اور وزارت خارجہ کو امریکی اور برطانوی حکام کے ساتھ معاملہ اٹھانے سمیت ان ممالک کے ڈی جیز کو اگلے اجلاس میں وضاحت کےلئے طلب کر لیا ۔ پاکستان ایک پُرامن جمہوری ملک ہے جبکہ امریکہ پاکستان کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کررہاہے ،لہٰذاامریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بازرہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri