یوم پاکستان کی مناسبت سے 23 مارچ کے موقع پر تہران کے آزادی سکوائر پر پاکستان اور ایران کے پرچم روشن کئے گئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایران کے سفارتخانے نے اس حوالے سے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تہران کے آزادی اسکوائر کو پاکستان اور ایران کے پرچموں سے روشن کیا گیا ہے۔اس موقع پر ایرانی سفارتخانے کی جانب سے کہا گیا کہ 23 مارچ کو پاکستان یوم کے اس پرمسرت موقع پر تہران میں آزادی سکوائر کو ایران اور پاکستانی پرچم سے روشن کیا گیا تاکہ دونوں برادر ممالک کی یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے، ہم پاکستانی عوام کو یوم پاکستان کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایران کی جانب پاکستان کے قومی دن کے موقع پر یکجہتی کے مظاہرے کو سراہتے ہوئے ایران میں پاکستانی سفیر مدثر ٹیپو نے کہا کہ ایرانی اقدام دونوں ممالک کے گہری دوستی اور دوستانہ روابط کی علامت ہے۔ یوم پاکستان پر اتحاد کا مظاہرہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے مضبوط رشتے کا عکاس ہے۔اس تعاون اور گرم جوشی کے مظاہرے پر ایران کے مشکورہیں۔محترمہ فرحت جبین، پریس کونسلر اسلام آباد نے راقم الحروف کو ایران کے آزادی سکوائر میں ہونےوالی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال بھیجا اور پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اپنی نیک تمناو¿ں کا اظہار بھی کیا۔ تہران میں ہونےوالی تقریبات پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی تعلقات کو خراج تحسین پیش کرتی تھیں۔ دونوں ممالک طویل عرصے سے اتحادی رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران، پاکستان اور ایران نے تجارت، سلامتی اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف محاذوں پر تعاون کیا ہے۔ روشن آزادی اسکوائر نے دونوں ممالک کے درمیان پائیدار دوستی کی یاد دہانی کے طور پر کام کیا، جو ان کی مشترکہ اقدار اور خواہشات کی علامت ہے۔ تہران میں 84ویں یوم پاکستان کی تقریبات صرف ماضی کی یادگار نہیں تھیں بلکہ ان مضبوط رشتوں کا اعادہ بھی تھیں جو پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کیساتھ باندھتے ہیں۔ اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ دونوں قوموں کے درمیان گہری دوستی کا ثبوت تھا، جو وقت کی کسوٹی پر قائم ہے۔ پاکستان اور ایران کے روشن جھنڈوں نے امید کی کرن کا کام کیا جو دونوں ممالک کے روشن مستقبل کا اشارہ دے رہے ہیں۔ 1979ءمیں ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور شاہی دور ختم ہوا۔ پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بھی ان برسوں میں برادرانہ اور دوستانہ رہے۔ انقلابی ایران کو آغاز ہی سے جن دشواریوں کا سامنا ہوا ان کا تعلق فوج سے تھا۔ایرانی فوج شاہ کی وفادار تھی۔ انقلاب کے فوری بعد عراق۔ ایرانج جنگ شروع ہوئی۔ عراق کی پشت پر امریکہ تھا۔ ایران کی نئی فوج IRGC کہلائی جسے سپاہِ پاسدارانِ انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس کی نفری کو شروع شروع میں تربیت اور اسلحہ کے استعمال کی مشکلات کا سامنا ہوا۔ ایران۔ عراق جنگ 8سال تک چلتی رہی اور اس کا خاتمہ جب ہوا تو کسی بھی فریق کو صریح فتح نہ مل سکی۔ ایرانی فوج کے پاس ان ایام میں شاہ کے زمانے کا چھوڑا ہوااسلحہ ہی موجود تھا۔ اس دور میں جب پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی حکمرانی تھی تو ایرانی وفود پاکستان میں باقاعدگی سے آتے جاتے رہے ۔ اس جنگ میں بین الاقوامی اور جنگی سطح پر پاکستان نے ایران کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان کی حمایت اور ساتھ کی وجہ سے 1988ءکے بعد ایران نے یکدم ایک بڑی چھلانگ لگائی اور اپنی مسلح افواج کوجدید بنانے کا ایک سٹرٹیجک پروگرام ترتیب دیا۔ اس نے جوہری پروگرام کی طرف بھی بطور خاص توجہ دی اور اپنے روائتی ہتھیاروں (آرمر، آرٹلری، ائر) کی جگہ میزائل فورس کی پروڈکشن پر بیشتر توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے بعد ایرانی رہنماو¿ں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ایران میں ڈرونوں اور میزائلوں کی پروڈکشن اور ان کی بیرونی ملکوں کو برآمد، مغربی بلاک کےلئے ایک حیرت انگیز درد سر ہے۔ ایران مغرب میں اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر عراق، شام اور لبنان تک اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکا ہے اور اس کے بعد بحیرہ روم تک جانے کاآرزومند ہے۔ اس کی نگاہیں مشرق کی طرف بھی لگی ہیں۔ پاکستانی بلوچستان پر حالیہ حملہ اس کا ایک مظہر ہو سکتا ہے۔ لیکن جلد ہی ایرانی حکام کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان کی طرف دیکھنا، عراق، شام اور لبنان کی طرف دیکھنے سے بالکل ایک مختلف بات ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ان دونوں ملکوں میں اب باہمی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں، دونوں ہی ملک ایک دوسرے کے برادر ہیں اور دونوں کی تاریخ اور ثقافت کے ڈانڈے ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ صرف اِس بات سے ہی کرنا کافی ہوگا کہ ایران واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔اِس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاک بھارت جنگوں میں ایران نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور اِس کی فضائیہ کو تمام مطلوبہ سہولیات فراہم کی تھیں جن کے بغیر پاکستان کےلئے بھارت کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔مستقبل میں بھی پاکستان اور ایران تجارت کے شعبے میں بھی مشترکہ تعاون کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔ ایران پر بیرونی طاقتوں بالخصوص امریکا کا بہت زیادہ دباو¿ رہا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک دنیا کے اہم ممالک سے کٹ کر تن تنہا ہوگیا ہے اور اسے پاکستان جیسے حریف ملک کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ ایرانی قیادت کو اِس حقیقت کا جتنی جلدی احساس ہوجائے اتنا ہی ایران کے مفاد میں ہوگا۔ اِدھر پاکستان کو جو توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے اور جس وجہ سے نہ صرف پاکستان کے عوام ب±ری طرح متاثر ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی صنعتیں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ا±ن کی برآمدات کا شعبہ شدید مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔ایران کی مدد کی ضرورت ہے ۔ دونوں ممالک میں موجود کچھ عناصر پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے کے درپے ہیں اور ایک دوسرے کی سرزمین کو اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کےلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کی زیرِ حراست بھارتی جاسوس کلبوشن یادَو اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ایران کے اربابِ اختیار کو اِس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ نہ صرف ا±س کےلئے بلکہ ا±س کے عزیز برادر ملک پاکستان کےخلاف بھی ایک سوچی سمجھی گہری سازش ہے۔