کالم

پاک ایران تنازع! کامیاب سفارتکاری

جب 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران ایران نے ہمارا مکمل ساتھ دیا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے ایران نے ہماری حمایت کی۔ ایران اور پاکستان کا ہزار میل طویل بارڈر ہیے جس پر 2013 تک کوئی باڑ نہیں تھی بعد میں ایک معاہدے کے تحت پاک ایران بارڈر پر طویل باڑ لگائی گئی۔ دونوں اسلامی برادر ممالک ہیں۔ ایران کی فورسز نے پاکستان کی علاقائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کے سرحدی علاقے پر راکٹوں سے حملہ کیا۔ ایران کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں جہاں سے ایران میں دہشت گردی ہوتی ہیے۔پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس ایرانی اقدام کی شدید الفاظ میں مزمت کی۔الیکشن مہم میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے باوجود بلوچستان کے علاقے میں ایرانی مہم جوئی کے خلاف سیاست دان سمیت پوری قوم یکجا ہو گئی۔ دفتر خارجہ کی ایک بریفنگ میں کہا گیا کہ پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہیے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ایرانی حملے کےدوسرے روز پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے ایران کے صوبے سیستان میں گھس کر بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ٹارگیٹڈ اپریشن سے نشانہ بنایا اور کئی دہشتگردوں کو واصل جہنم رسید کیا اس کارروائی کو اپریشن مرگ سرمچار کا نام دیا گیا۔ پاکستانی وزارت خارجہ اورفوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی پاک فوج کی جوابی کاروائی کی تصدیق کی۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ برسوں پر محیط برادرانہ تاریخی اور مذہبی تعلقات ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ ایران کے اندر بھارتی لابی کا اثر و رسوخ بڑھ رہاہے اور خاص طور پر چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر اور ریلوے ٹریک بچھانے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا ہیے۔ پاکستان کے سابقہ صدر آصف زرداری کے دور میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائین بچھانے کا معاہدہ کیا تھا ایران کی طرف سے تمام کام مکمل ہونے کے باوجود پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر امریکی دباﺅ کی وجہ سے اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اگر یہ گیس پراجیکٹ مکمل ہو جاتا تو پاکستان میں گیس کی قلت پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ بلوچستان میں دہشت گردی سرحد پار بھارت سے ہوتی ہیے اور دہشت گرد کارروائیاں کرکے واپس انڈیا اور افغانستان میں پناہ لیتے ہیں۔ سالوں قبل بھارت کی نیوی کا ایک حاضر سروس افسر کلبوشن یادیو جاسوسی کے الزام میں ایران کے سرحدی علاقے سے گرفتار ہوا مقدمہ چلا اسے سزائے موت ہوئی لیکن سزا پر عملدرآمد نہ سکا کیونکہ بھارت بین الاقوامی عدالت انصاف میں چلا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہیے کہ بلوچستان میں دہشت گردی سرحد پار سے ہوتی ہے۔ پاکستان کی حکومت مصدقہ ثبوتوں کے ساتھ بار بار ایرانی حکومت کو آگاہ کرتی رہی لیکن ایران نے دہشتگردوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ پاکستانی مسلح افواج نے ایرانی حملے کا جواب دےکر درست اقدام اٹھایا۔ بلوچستان میں کئی علیحدگی پسند تنظیمیں سر گرم عمل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان میں علیحدگی پسند سرگرم تھے وہ پہاڑوں پر چڑھ کر کاروائیاں کرتے تھے اور بھٹو حکومت نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی تھی۔ چین کی وزارت خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔ افغانستان ترکیہ اور روس بھی مصالحت کے لئے میدان میں آ گئے تاکہ کشیدگی نہ بڑھے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان دشمنی اس وقت سے چلی آ رہی ہیے جب 1979 کے انقلاب کے بعد ایران میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے جب ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو پاکستان امریکہ اور ایران کے درمیان رابطے کا زریعہ بنا۔ روسی صدر پوٹین نے یوکرین پر جنگ مسلط کرکے اس خوشحال ملک کو تباہ و برباد کر دیا۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشتیں متاثر ہوئیں کیونکہ یوکرین دنیا بھر کو گندم سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ مہنگائی بے روزگاری اور کساد بازاری نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔سوال یہ ہیے کہ ایران کو پاکستان کے اندر گھس کر حملہ کرنے کی کیا ضرورت تھی اگر کوئی مسلہ تھا تو اسے سفارتکاری کے زریعے حل کیا جا سکتا تھا۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کی کابینہ نے منظوری دے دی۔ پاکستان اور ایران کے مشترکہ دوست چین ترکیہ کی کوششوں سے پاکستان اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں اور فروری کے آخر تک دونوں ممالک کے سفیر اپنی پوزیشن سنبھال لیں گے۔ دونوں ممالک یہ بات اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ گشیدگی اور لڑائی سے دشمن فائدہ اٹھائے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس کی دعوت پر ایرانی وزیر خارجہ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اس وقت یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہیے۔ غزہ میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے امریک کی پشت پناہی سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے ایسے حالات میں جنگ پاکستان اور ایران دونوں کے مفاد میں نہیں تھی دونوں ممالک نے زمہ دار ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کے شعلوں کو بھڑکنے نہیں دیا اور باہمی سفارتکاری سے اس مسلے کو حل کرکے عقلمندی کا ثبوت دیا۔ دور اندیش اقوام اپنے مسائل بات چیت سے حل کرتے ہیں یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے