کالم

پاک سعودی معاشی فریم ورک ، خود انحصاری کی راہ

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی بنیادوں پر مضبوط رہے ہیں۔ مگر حالیہ برسوں میں پاکستان کی معیشت شدید دبا کا شکار رہی بڑھتے قرضے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، تیل کی درآمد پر انحصار اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے اقتصادی خودمختاری کو محدود کر دیا۔ ایسے میں سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاشی و دفاعی معاہدے ایک نئی امید کے طور پر سامنے آئے ہیں۔پچھلے چند ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان دو بڑے معاہدے طے پائے ایک جامع ”معاشی تعاون کا فریم ورک”اور دوسرا”سٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ”(SMDA)”۔یہ دونوں سمجھوتے نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت دیتے ہیں بلکہ خطے میں استحکام اور شراکت داری کے ایک نئے دور کا آغاز بھی کر سکتے ہیں۔ فروری میں سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ اور حکومتِ پاکستان کے مابین تین اہم معاہدے طے پائے۔ ان میں سے سب سے اہم . ارب ڈالر مالیت کی تیل کی درآمد کیلئے ڈیفرڈ پیمنٹ سہولت ہے۔ اس انتظام کے تحت پاکستان سعودی عرب سے تیل درآمد کر سکے گا اور ادائیگی ایک سال بعد کرے گا۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر فوری دبائو کم ہوا اور مالیاتی استحکام میں کچھ سانس لینے کی گنجائش پیدا ہوئی۔ستمبر میں طے پانیوالادفاعی معاہدہ اپنی نوعیت کا تاریخی سمجھوتہ ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا گیا تو اسے دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے کر ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے۔پاک سعودی معاشی فریم ورک کا بنیادی مقصد دوطرفہ تعاون کو توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، زراعت، معدنیات، ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں تک وسعت دینا ہے۔ یہ فریم ورک سعودی عرب کے ویژن 2030 کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جس کے تحت سعودی حکومت خطے میں اقتصادی تنوع اور صنعتی تعاون کو فروغ دینا چاہتی ہے۔پاکستان کیلئے یہ موقع ہے کہ وہ سعودی سرمایہ کاری کو توانائی کے منصوبوں، گوادر پورٹ، قابلِ تجدید توانائی، فوڈ سیکیورٹی اور معدنی وسائل کی ترقی کیلئے بروئے کار لائے۔اسی مقصد کیلئے دونوں ملکوں نے وزرائے خزانہ کی سربراہی میں ایک جوائنٹ اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے جو مشترکہ منصوبوں کی نگرانی کریگی۔یہ فریم ورک پاکستان کیلئے توانائی کے بحران میں کمی، مہنگائی میں نرمی اور شرحِ سود میں توازن لانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔دوسری طرف سعودی عرب کیلئے یہ شراکت داری جنوبی ایشیا میں صنعتی اور جغرافیائی رسائی بڑھانے کا موقع ہے۔دفاعی تعاون سعودی عرب کیلئے ایک متبادل تزویراتی راستہ فراہم کرتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطہ نئے اسٹریٹجک توازن کی جانب بڑھ رہا ہے۔تاہم یہ معاہدے مستقل حل نہیں جیسا کہ ڈیفرڈ پیمنٹ کا مطلب ادائیگی کو مخر کرنا ہے، ختم کرنا نہیں۔ پاکستان کو اس ریلیف کو پائیدار ترقی میں بدلنے کیلئے بنیادی معاشی اصلاحات پر توجہ دینی ہوگی۔ملک کو ٹیکس اصلاحات، توانائی سبسڈی کے ازسرِنو جائزے، روپے کے استحکام، گورننس کی بہتری، اور صنعتی برآمدات کے فروغ کی ضرورت ہے۔ان اصلاحات کے بغیر یہ معاہدے وقتی سہارا تو دیں گے مگر خود انحصاری کا متبادل نہیں بن پائیں گے۔ دفاعی معاہدہ اگرچہ براہِ راست معاشی اثر نہیں رکھتا، لیکن اس سے خطے میں استحکام کا احساس پیدا ہوگا جو غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ماحول کو بہتر بنا سکتا ہے۔ پاک سعودی معاشی و دفاعی شراکت داری دونوں ممالک کیلئے ایک نیا موڑ ہے ۔ پاکستان کیلئے یہ موقع ہے کہ وہ اپنی کمزور معیشت کو سہارا دے کر خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو، جبکہ سعودی عرب کیلئے یہ تعلق خطے میں اس کی حکمتِ عملی اور ویژن 2030 کو تقویت دیتا ہے۔ پاکستان نے اس موقع کو اگر داخلی اصلاحات کے ساتھ جوڑا، معیشت میںپیداواریت بڑھائی اور توانائی کے شعبے میں خودکفالت حاصل کی تو یہ فریم ورک محض اعلامیہ نہیں بلکہ عملی سنگ میل ہوگا پاکستان کی معیشت اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں فیصلہ سازی اور دیانت دار عمل ہی اس کے مستقبل کا تعین کریں گے ۔،،پاک سعودی معاشی فریم ورک،، دراصل ایک نیا دروازہ ہے اب پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اس دروازے سے گزر کر خود انحصاری کا سفر شروع کرتا ہے یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے