کالم

پاک فوج کا دوٹوک موقف

اب کسی کو کوئی ابہام یا اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ پاک فوج تاریخ کی درست سمت میں کھڑی ہے۔کسی کو یہ گمان یا مان بھی نہیں ہونا چاہیے کہ پاک فوج کسی سیاسی جماعت کی حامی ہے یا کسی پارٹی کی مخالف ہے۔دو جمع دو برابر چار کی طرح یہ بات صاف کر دی گئی ہے کہ مسلح افواج کسی خاص سیاسی جماعت یا کسی سیاسی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتیں۔دوسری جانب دہشتگردی کے باب میں بھی عسکری ترجمان واضح کر دیا ہے کہ آ خری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری گی۔پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پاک فوج نے اپنی پوزیشن علی اعلان واضح کی ہے کہ ہم بطور ادارہ نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے کوئی مخاصمت رکھتے ہیں۔آئینی طور پر ہونا بھی یہی چاہیے کہ پاک فوج سیاسی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنا کردار ادا کرے۔ظاہر و باہر ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ اپنی فوج سے محبت کرتاہے اور اس لحاظ سے اس ادارے کو مکمل اور کامل طور پر غیر جانبدار ہی ہونا چاہیے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے حالیہ طور پر جو پریس کانفرنس کی ہے اس نے کچھ شرپسندوں کے ارمان ٹھنڈے کر دئیے ہیں۔میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کیا کمال گفتگو کی اور ایک ماہر ترجمان کی طرح اپنی بات کا غضب کا ابلاغ کیا۔انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے تمام سیاستدان اور سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں اور افواج پاکستان کسی خاص سیاسی سوچ یا کسی مخصوص جماعت کی نمائندگی نہیں کرتی،اس بریفنگ کا مقصد افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور حالیہ دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا احاطہ کرناہے،رواں سال کے دوران، سکیورٹی اور دہشت گردی کے اہم معاملات پر روشنی ڈالی جائے گی، پچھلے چند ماہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گرد امن و عامہ کو خراب کرنے کی بے حد کوششیں کرتے رہے، مگر فورسز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنانے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔امیدہے عوام ہمارا ساتھ دیں گے تاکہ دہشت گردوں کو ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ختم کر دیا جائے۔اصل میں فوجی ترجمان کو یہ پریس کانفرنس اس لیے کرنی پڑی کہ کچھ مخصوص لوگ آج بھی فوج کیخلاف پروپیگنڈا کرنے میں مشغول ہیں۔سوشل میڈیا پر باور کرایا جاتا ہے کہ ہمارے خلاف کاروائیوں کے پیچھے ایک ادارہ ہے۔میجر جنرل احمد شریف چودھری نے اس تاثر یا اس ا فسانے کی واضح تردید کی ہے تاکہ عوام کے ذہن صاف ہو جائیں اور وہ کسی کی باتوں میں نہ آئیں۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئین کی بالادستی کا بھی عزم دہرایا ہے تاکہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو سکے۔پاکستان کو ایک جانب دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہے۔اس ماحول میں ضروری ہو چکا تھا کہ طاقتور ادارے کی جانب سے واضح سٹینڈ لیا جائے اور ملک دشمنوں کو صاف صاف پیغام دیا جائے کہ ملک کے محافظ جاگ رہے ہیں اور وہ کسی بھی مہم جوئی کا منی توڑ جواب دیں گے۔امید کی جانی چاہیے کہ اب شرپسندوں کو بھی کان ہو جائیں گے اور وہ سمجھ چکے ہوں گے ہماری خونریز ی اور سفاکی اب نہیں چکے گی۔عسکری ترجمان نے کھل کر کہا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات اور ان کی واپسی سابقہ حکومت کا فیصلہ تھا۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پالیسی واضح ہوتی ہے کہ آئندہ دہشت گردوں کو انہی کے سکوں میں ادائیگی کی جائے گی۔رواں سال مجموعی طور پر چھوٹے بڑے دہشت گردی کے 436 واقعات رونما ہوئے ہیں، ان میں 293 افراد شہید جبکہ 521زخمی ہوچکے ہیں،خیبرپختونخوا میں 219 واقعات میں 192 افراد شہید جبکہ 330 زخمی ہوئے، بلوچستان میں 206 واقعات میں 80 افراد شہید جبکہ 170 زخمی ہوئے، پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 14 افراد شہید جبکہ 3 زخمی ہوئے۔اسی طرح سندھ میں ہونے والی دہشت گردی کے 6 واقعات میں 7افراد شہید جبکہ 18 زخمی ہوئے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالتے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ بس بھئی بس،اب اور نہیں۔دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں اور انکے ٹھکانوں میں ہی موت کی نیند سلا دیا جائے گا تا کہ عوام سکھ کا سانس لیں اور اطمینان سے زندگی گزاریں۔سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی منظوری دیدی۔اس کے بعد چل سو چل ہے اور آئے روز دہشت گردوں کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے۔باخبر مبصر بتاتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی اب کنارے آن لگی ہے۔کیونکہ جنرل عاصم منیر اب یکسو ہو چکے ہیں کہ دہشت گردی اور سیاسی بے یقینی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔اب آنے والے ایام میں دہشت گردوں کے خلاف زمین مزید تنگ ہو گی اور وہ اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔سیاسی بے یقینی کے تاجر اور سوداگر بھی اب اپنا چورن نہیں بیچ سکیں گے کیونکہ پاک فوج اس ضمن میں بھی اپنی پالیسی واضح کر چکی ہے۔ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ پاک فوج نے جن دونوں کاموں کا بیڑا اٹھایا ہے ،رب عرش وفرش ہمارے بانکے سجیلے جوانوں کو اپنے اس مقصد میں کامیاب فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے