زمانہ گزرتا ہے، بادِ صرصر گزر جاتی ہے، مگر جو رشتے دلوں کی گہرائی سے بندھیں، وہ وقت کے تھپیڑوں سے نہیں ٹوٹتے۔ ایسا ہی ایک ناتا مملکتِ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان ہے؛ ایک رشتہ جو نہ فقط جغرافیے کا پابند ہے، نہ مفادات کا اسیر، بلکہ ایمان، اخوت، تاریخ اور تقدیر کا روشن حوالہ ہے۔پاکستان اور سعودی عرب دو ایسے اسلامی قلعے، جنکے دلوں میں قرآن کی روشنی، سنت کی خوشبو، اور مسلم امہ کی عظمت کا خواب سانس لیتا ہے۔ ان کی دوستی نہ درباروں کی چاپلوسی سے بنی، نہ میزوں پر رکھے معاہدوں سے، بلکہ یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب دِل بینقاب، نیتیں بیریا اور سروں پر ایک ہی خدا کا سایہ تھا۔تاہم، روزگار کے جال میں، تجارت کے چراغوں میں، اور عالمی بساط پر پیش آنے والے تغیرات میں ایک ایسا طبقہ بھی سعودی عرب میں ابھرا، جس نے یہ باور کرانا چاہا کہ خطے میں حقیقی طاقت تو بھارت ہی ہے، اور پاکستان محض ایک تاش کا پتا۔ ان لوگوں نے تاریخ کی تلخیوں کو فراموش کیا، جب برصغیر کے مسلمان سرخ رو ہو کر حجاز کے ساحلوں پر خیرات کے بیج بویا کرتے تھے۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ یہ پاکستان ہی ہے، جو اس خطے میں اسلامی فکر کی فصیل کی مانند کھڑا ہیایسی دیوار جس پر تہذیبِ اسلام کا پرچم لہراتا ہے۔یاد آیا، جدہ کے ایک بڑے ہوٹل میں نشست برپا تھی۔ وہاں راقم نے کہا:پاکستان لینے والا ہاتھ ہے، اور سعودی عرب دینے والا۔یہ بات سنی تو شیخ رشیدبرجستہ گویا ہوئے: افتخار صاحب! پاکستان کبھی لینے والا ہاتھ نہیں تھا۔ یہ ملک خود دار ہے، خود کفیل ہے، اور اللہ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہے۔ اگر دوستی ہو گی، تو برابری کی بنیاد پر ہو گی۔ان کا یہ قول، اس بحرِ فکر میں ایک تازیانہ تھا۔ یہ وہی بات تھی جو ہم برسوں سے کہتے آئے کہ جدہ کی ریتوں پر جو گندم جایا کرتی تھی، وہ دہلی، بنارس، لاہور، پشاور، گجرانوالہ، مظفرآباد اور بہاولپور سے جاتی تھی۔ اور وہ نہ کوئی صلہ چاہتا تھا، نہ کسی کے احسان کا طوق گلے میں ڈالتا تھا۔ اس لیے، اگر آج سعودی عرب مملکتوں کی صف میں ایک درخشندہ ستارہ ہے، اور اگر وہ اپنی دولت و ترقی کو بھائیوں پر نچھاور کرے، تو یہ کسی پر احسان نہیں، بلکہ اس رشتے کی تجدید ہے،جو مدینہ کے انصار اور مکہ کے مہاجرین کے مابین تھا۔جہاں تک مملکتِ سعودی عرب کی حالیہ ترقی کا تعلق ہے، تو 2034 کا فیفا ورلڈ کپ، نیوم سٹی جیسے خواب، اور عالمی سطح پر مسلم قیادت کا علم تھامنایہ سب فخر کا مقام ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ترقی ہو، اور ایسی ہو کہ پوری امہ کا سر فخر سے بلند ہو۔ پاکستان، باوجود ہزاروں زخموں کے، آج بھی سینہ تان کے کھڑا ہے۔ ہماری افواج، ہماری عوام، ہمارے شہدایہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم کبھی غلامی کی زنجیر میں نہیں جکڑے جائیں گے، نہ اپنی نظریاتی اساس سے دستبردار ہوں گے۔میں نے اکثر سعودی دانشوروں سے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین بھارت جیسی کسی طاقت کو تیسرا فریق مت بنائیں۔ یہ دوستی دو دلوں کا رشتہ ہے، ایک نورِ ایمان کا بندھن ہے۔ بھارت کا تصور اس تعلق میں ایک فکری آلودگی ہے، جو نہ اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ ہے، نہ حجاز کی سادگی و حرارت سے۔آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ان رشتوں کو محض تسبیح کے دانوں کی مانند نہ گنیں بلکہ ان میں روح ڈالیں۔ تعلیمی ادارے، مساجد، میڈیا، اہلِ فکر و دانش سب کو یہ مشن اپنانا ہو گا کہ پاک سعودی تعلقات کی بنیاد قرآن، اخوت، خودی اور خدمتِ امہ ہو۔
یہ دوستی نہ بازار کی سوداگری ہے،
نہ اجلاسوں کی قرار داد
یہ ایک چراغ ہے جو دلوں میں جلتا ہے،
ایک عہد ہے جو نسل در نسل چلتا ہے۔
پاکستان زندہ باد، سعودی عرب پائندہ باد،
پاک سعودی دوستی برقرار و تابندہ باد
کالم
پاک و عرب دوستی کی ایک باوقار تعبیر
- by web desk
- جولائی 27, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 19 Views
- 9 گھنٹے ago